- 23 سالہ عائشہ گذشتہ ہفتہ احمد آباد کے سابر متی ند ی میں کود اپنی جان دیدی۔ خودکشی سے پہلے عائشہ نے ایک ہنستے ہنستے ہوئے ایکویڈیو بنایا۔ عائشہ کی ہنسی کے پیچھے کتنے درد تھے۔ عائشہ کے وکیل نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئےعائشہ کے درد کو بیان کیا۔عائشہ کے وکیل ظفر پٹھان نے چونکا دینے والے انکشافات کیے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 23 سالہ عائشہ کی شادی عارف سے ہوئی تھیجو راجستھان کے جالور میں رہتا ہے۔وکیل نے عارف پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ عارف خان کے راجستھان کے ایک لڑکی سےتعلقات ہے اور عارف خان عائشہ کے سامنے ویڈیو کال پر گرل فرینڈ سے بات چیت کیا کرتا تھا۔وہ اپنی گرل فرینڈ پر پیسہ خرچ کرتاتھا اور اسی وجہ سے وہ عائشہ کے والد سے رقم مانگتاتھا۔
نکاح کے دو سال بعد ہی شروع ہوئی تھی عائشہ کی جدوجہد
ظفر پٹھان کا کہنا ہے کہ عائشہ کی جانب سے صابرمتی ریور فرنٹ پر بنائی گئی ویڈیو نے لوگوں کو حیران کردیا لیکن حقیقت یہ ہے کہعائشہ کی جدوجہد اس کی شادی کے 2 سال بعد ہی شروع ہوئی تھی۔ عارف نے خود عائشہ سے کہا تھا کہ وہ ایک اور لڑکی سے محبتکرتا ہے۔ اس کے باوجود عائشہ اپنے غریب والدین کی عزت کو برقرار رکھنے کے لئے لڑتی رہی۔ وہ ہر لمحہ ایک نئی پریشانی سےگذرتی رہی ، لیکن خاموش رہی۔ وکیل کا کہناہے کہ بیوی کے سامنے ہی اپنی گرل فرینڈ سے بات چیت کرنے والے شوہر عارفخان نے اپنی کئی اوچھی حرکتوں سے اپنے ہی کردار کا خلاصہ کیاتھا۔
راجستھان کے شہر جالور میں رہنے والے عارف پر عائشہ کو خودکشی کے لیے اکسانے کا الزام ہے ۔ عارف کو پیر کی رات گجراتپولیس نے راجستھان کے پالی سے گرفتار کرلیاہے۔ وکیل کا کہناہے کہ عائشہ اپنی شادی کو بچانے کی کوشش کرتی رہی، وہ صورتحالکو آخر تک بہتر بنانے کے لیے سنجیدگی سے جدوجہد کرتی رہتی تھی۔
عائشہ کے وکیل نے بتایا کہ وہ ایک باصلاحیت لڑکی تھی۔ تعلیم کے علاوہ وہ گھر کے ہر کام میں ذہین تھی۔ بچپن سے ہی جس طرحاس نے اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو نبھایا ، اسی طرح اس نے اپنے سسرال والے گھر میں بھی کوشش کی۔ اس نے صورتحال کواس حد تک سنبھالنے کی کوشش کی کہ اس کے اہل خانہ کو تکلیف نہ پہنچے۔ شادی کے وقت ، عائشہ کے والد نے اپنی بیٹی کو اس کیضرورت کے درکار وہ سب کچھ دیا جو روزمرہ کی زندگی میں کام آتاہے لیکن عائشہ کے شوہر اور سسرال والے اس سے مطمئن نہیںتھے۔ حمل کے دوران ڈپریشن کی وجہ سے عائشہ کے بچہ کی ہوئی تھی موت۔ وکیل نے بتا یا کہ بچہ ڈپریشن کی وجہ سے رحم میں ہیفوت ہوگیا تھا۔اسی دوران یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ عارف ایک بار عائشہ کو احمد آباد چھوڑ کر چلا گیا تھا۔اس وقت عائشہ وقتحاملہ تھیں۔ اہل خانہ کا الزام ہے کہ عارف نے کہا تھا کہ اگر آپ مجھے ڈیڑھ لاکھ روپئے دیں گے تو میں عائشہ کو اپنے ساتھ لےجاؤں گا۔عائشہ حمل کے دوران عارف کے اس رویے سے بکھر گئی تھی۔ وہ افسردگی کا شکار ہوگئی تھی ۔ اس دوران عائشہ کیطبعیت زیادہ خراب ہوگئی ہے اور خون کا زیادہ اخراج ہوگیا تھا۔اس کے جسم میں خون کی کمی کے سبب ڈاکٹروں نے فوری طورپر سرجری کرانے کو کہا تھالیکن اسی دوران رحم میں ہی بچے کی موت ہوگئی۔ وکیل نے بتایا کہ اس کے باوجود ع
ارف خان اوراسکے اہل خانہ کے رویہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔
عارف کو سزا دی جانی چاہئے: عائشہ کے والد کا مطالبہ۔
عائشہ کے والد لیاقت علی نے کہا کہ وہ عارف کے والد کو فون کرنا چاہتے تھے اور پورے معاملے کے بارے میں اطلاع دینا چاہتےتھے لیکن انہوں نے کبھی میرا فون نہیں اٹھایا۔ میری عائشہ واپس نہیں آئیں گی ، لیکن اس کے مجرم کو سزا ضرور ملنی چاہئے ، تاکہکسی اور کی بیٹی کے ساتھ ایسا نہ ہو۔ میری بیٹی عائشہ خوش گوار تھیں لیکن جہیز کےلالچ میں اس کی زندگی جہنم بنا دی گئی تھی۔کئیبار سسرال والے اسے تین دن تک کھانا بھی نہیں دیتے تھے۔ نکاح کے دو سال بعد ہی شروع ہوئی تھی عائشہ کی جدوجہد۔ عائشہ کےشوہر سے پوچھ تاچھ کررہی ہے گجرات پولیس۔ گجرات پولیس عائشہ کے شوہر عارف خان سے پوچھ تاچھ کررہی ہے۔ یادرہے کہگجرات پولیس نے جالور میں عارف کے گھر پہنچ کر اسکے اہل خانہ سے بات چیت کی تو پولیس کو اہل خانہ نے بتایاتھا کہ عارف ایکشادی کی تقریب میں گیا ہے اور واپس نہیں آیاہے جس کے بعد پولیس نے عارف خان کی تلاش شروع کردی اور اس کے بعدموبائل لوکیشن کی مدد سے عارف کو پیر کی رات کو پالی سے گرفتار کیا گیا تھا۔