خورشید صحافت
غروب ھو گیا۔۔
تحریر۔۔نصراللہ چوھدری۔
لالہ موسی کی صحافت کا مسکراتا درخشندہ اور اپنے نام کی طرح روشن ھر محفل میں چمکنے والا بے شمار صلاحیتوں کا مالک۔شاعر ۔ اینکر ۔کالم نگار۔بہترین رائئڑ۔ فوٹو گرافر۔ سیاسی ۔سماجی مزھبی شخصیت ۔استاد۔اور بہترین سپورٹس مین خورشید احمد ندیم اپنے بے شمار چاھنے والوں کو چھوڑ کر اپنے سفر پر ھمیشہ کے لیے روانہ ھو گیا۔۔
میرئ شناسائئ خورشید احمد ندیم سے 80 کی دھائئ سے تھی۔
جس وقت وہ اسلامیہ سکول کے گراونڈ پر ھاکی کھیلتا تھا۔ اور یہ لالہ موسی میں ھاکی کا ملکی سطح کا بہترین کھلاڑی سمجا جاتا تھا ۔ اسے ھاکی سے جنون کی حد تک لگاو اور پیار تھا۔
اپنے سکول کی طرف سے ان کی ٹیم کے ساتھ بہت سے میچ کھیلے لیکن اس کے مقابلہ کا کوئئ کھلاڑی دور دور تک۔نظر نیہں اتا تھا
۔پھر شعبہ صحافت میں ان کے ساتھ بہت وقت گزرا۔
خو بصورت شخصیت کا مالک جس کی مجھے سب سے اچھی بات جو لگتی تھی وہ اس کی حس مزاح تھی ھر وقت شوخی شرارت کے موڈ میں رھتا تھا ۔لوگوں کئ تصویروں میں رنگ بھرنے والا اندر سے ٹوٹا ھوا ھے یا نیہں کسی کو کیا معلوم ۔۔
پھر صحافت کے ساتھ ساتھ اس میں مزھبی ٹچ بھی انا شروع ھو گیا تھا ۔
اللہ تعالی کے فضل سے ھر وقت درودہ شریف پڑھتا اور دوسروں کو پڑھنے کی تلقین کرتا ھوا نظر اتا۔۔
خورشید ندیم۔زمانے میں ھونے والی نا انصافیوں پر سخت نالاں اور پریشان نظر اتا تھا۔ جس کی جھلک اس کے کالموں سے بھی عیاں تھی۔
خورشید ندیم کو اپ جس بھی پہلو سے دیکھیں وہ لاجواب تھا ۔
اخری دنوں میں بطور اینکر بہت سے اھم مسائل زیر بحث لا تا رھا اور انھیں حل کروانے کی کوشش کرتا رھا ۔
بیماری میں اس کی عیادت کے لیے فون کیا تو اس کی سا نسیں اکھڑی ھوئئ محسوس ھو رھی تھی
لیکن اسے کرونا ھو گیا ھے ماننے کو تیار نیہں تھا ۔
پھر پتہ چلا ھسپتال شفٹ ھو گیا ھے اس کے دوست عرفان صفی کی طرف سے دعا کی اپیل نے مزیدخوفزدہ کر دیا۔
لیکن جب کچھ دنوں بعد کرونا کی رپورٹ نیگٹو ائئ تو تسلی ھوئئ ۔ کہ اللہ نے کرم کر دیا ھے۔
لیکن پھر اچانک موت کی خبر نے دماغ کوچکرا کے رکھ دیا۔۔
۔خدایا وہ تو ٹیھک ھو گیا تھا ۔
اس کی صحتیابی کے لیے تو بہت سے لوگوں نے رب کعبہ سےدعا کے لیے ھاتھ اٹھا لیے تھے
۔صحافتی تنظیموں اور ان کے دوستوں نے اسکا بہت ساتھ دیا تھا۔
۔۔۔لیکن پھر۔
عامر عثمان کی پوسٹ پڑھی جس نے ایک دفعہ پھر پریشان اور افسردہ کر دیا۔
جس میں خورشید احمد ندیم نے اخری وقت میں یہ پیغام بھجا تھا کہ مجھے اس سرکاری ھسپتال سے لے جاو یہاں کوئئ کسی کو نیہں پوچھتا ۔
ھسپتال والوں کی بے حسی اور پھر رزلٹ نیگٹو ھونے کے باوجود ان کی موت نے بہت سے سوالات اس نظام پہ اٹھا دئئے۔
موت تو برحق ھے لیکن اپنےسسٹم کو دیکھ کر بہت افسوس ھوتا ھے۔
۔خورشید ندیم کے بھائئ اس کا 9 سالہ بیٹا۔اس کی بیوی کس سے شکوہ کرے۔ اپنے مقدر سے۔۔ اس نظام سے۔۔ یاحکمرانوں سے ۔
خداراہ کچھ سوچو۔۔۔
۔ کب تک اورکتنے خورشیدوں کو اس قربانئ کے مرحلہ سے گزرنا ھوگا۔
خورشید احمد ندیم لالہ موسی کی رونق تھا ۔شعبہ صحافت کا عظیم سرمایہ تھا اس کی موت نے ھر انکھ کو اشکبار کر دیا ۔اللہ تعالی اسے اپنے جوار رحمت میں جگہ دے ۔اور اس کے لواحقین کو اس بڑے صدمہ کو برداشت کرنے اور صبر کی توفیق عطا فرمائے۔۔
۔۔جانے والے تو یاد بہت ائے گا۔۔