تنہائی
تحریر۔ شوکت علی
انسان کو ایک معاشرتی حیوان بھی کہا جاتا ہے یعنی یہ مل جل کر رہتا ہے ، دوسرے انسانوں کے ساتھ رابطے میں رہنا، انکے ساتھ تعلق بناۓ رکھنا انسان کی جبلت میں پایا جاتا ہے چناچہ ایسے انسان کو اگر تنہا رہنا پڑ جاۓ یا وہ تنہائی کے احساس میں گِھر جاۓ تو یہ بات اسکے لیے یقینا تکلیف دہ ہوگی۔ سوال یہ ہے تنہائی کیا ہے؟
زندگی میں ایسے لمحات یا تجربات جن میں اکیلے رہ جانے کا احساس دکھ، درد یا اذیت کی کیفیت پیدا کرنے لگے، جب انسان کے معاشرتی روابط کم پڑنے لگیں اور ان روابط کی خوبی یا وصف میں خاص طور پر کمی واقع ہونے لگے جیسے کہ انسان خواہش رکھتا ہوتو ایسا انسان تنہائی کے احساس میں مبتلا ہوتا چلا جاۓ گا۔ اگر انسان مستقل طور پر اس کیفیت میں مبتلا رہنے لگے تو یہ ذہنی اور جسمانی عوارض کا باعث بننے لگتی ہے بلکہ یہ انسان کی زندگی کو کم کر دیتی ہے۔
تنہائی ہمارے اندر منفی رحجانات پیدا کرنے لگتی ہے مثلاً انسان میں تعصّب پیدا ہونے لگتا ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ وہ کسی چیز کی حقیقت یا ذاتی تجربہ نہ ہونے کے باوجود پہلے سے ہی کوئی راۓ قائم کر لیتا ہے اور شاید یہی وجہ ہوتی ہے کہ تنہائی کا شکار افراد میں دوسرے افراد کی نسبت چیزوں کو ردّ کر دینے کا رحجان زیادہ پایا جاتا ہے۔
تنہائی کے احساس میں مبتلا ہونا اور کبھی کبھار خلوت اختیار کرنا دو مختلف چیزیں ہیں۔ تنہائی کا احساس معاشرتی رابطوں میں کمی کی وجہ سے اور آپکی خواہش کے برعکس پیدا ہوتا ہے جبکہ خلوت اختیار کرنا آپکی کی خواہش اور مرضی کے مطابق ہوتا ہے۔ خلوت سے مراد خود اپنی مرضی سے انتہائی مصروف زندگی سے تھوڑا سا وقت اپنے لیے نکالتے ہوۓ تنہا ہونے کا نام ہے تاکہ اپنے اعصاب کو تھوڑا سکون دیا جا سکے۔ خلوت بعض صورتوں میں ایک بہترین عمل ہوتا ہے، اس سے آپ کے اعصاب کو سکون ملتا ہے اور انسان کاروبارِ زندگی کے لیے پھر سے تازہ دم ہو جاتا ہے۔ ادب و فکر سے وابستہ لوگ خلوت میں اکثر تخلیقی عمل سے گزرتے ہیں۔ انسان خلوت کے لمحات میں اپنے زندگی کے معمولات اور فیصلوں پر نظرِ ثانی کر سکتا ہے بلکہ اس بات کا غالب امکان ہوتا ہے کہ خلوت میں جب انسان کے اعصاب پرسکون ہوتے ہیں تو وہ معاملات کو بہتر طور پر پرکھ سکے اور کوئی بہتر فیصلہ کر سکے کیونکہ جب اعصاب پر ہیجان اور ہنگامی کیفیت طاری ہو تو غلطی کا احتمال زیادہ ہوتا ہے۔
کیا تنہائی کا احساس انسان کی صحت اور اسکی خیر و عافیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اسکا سادہ سا جواب یہی ہے کہ تنہائی بلکل ایسا ہوتا ہے۔ تنہائی انسان کے موڈ پر سُسستی، اداسی اور پژمردگی چھا جانے کے علاوہ دل کی بیماریوں کا بھی باعث بنتی ہے۔ اس کے علاوہ ٹائپ ٹو ذیا بیطس اور جوڑوں کے درد کا بھی باعث بنتی ہے۔
دائمی قسم کی تنہائی کا احساس ایسے جسمانی ردعمل physical responses کا باعث بنتا ہے جس سے جسم میں ایسے ہارمونز کا اخراج ہونے لگتا ہے جو نیند کی کمی اور جسم کے مدافعتی نظام کی کمزوری کا باعث بنتا ہے۔ شدید تنہائی کے احساس سے بندہ مرتا تو نہیں لیکن ایسی معلومات ملتی ہیں کہ اس کیفیت کا شکار افراد میں مرنے کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔
اب آپ ان تمام باتوں کو دوسرے پہلو سے دیکھیں کہ اگر آپکے معاشرتی رابطے برقرار ہیں، آپ اپنی فیملی اور دوستوں کے ساتھ خوشگوار وقت گزارتے ہیں تو آپ خوش و خرم رہیں گے، آپکے جسم میں ایسے ہارمونز خارج ہونگے جو جسم کے اعضاۓ رئیسہ مثلاً دل گردے جگر معدہ وغیرہ کی کارکردگی پر صحت مند اثرات مرتب کریں گے تو آپ بیماریوں سے دور رہیں گے اور صحت مند طویل زندگی پائیں گے۔
تنہائی کس عمر کے افراد کو زیادہ متاثر کرتی ہے؟ انسان اسکا شکار عنفوانِ شباب یعنی نوجوانی اور بڑھاپے میں زیادہ ہوتا ہے۔ زندگی کے ان دونوں ادوار میں انسان کو ہمدرد اور خیال رکھنے والے رشتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ جوانی میں قدم رکھتے ہوۓ انسان بہت سی جسمانی تبدیلیوں اور جذباتی کیفیتوں سے گزرتا ہے، اس وقت انسان کو انسان کو دوستوں اور روز داروں کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ دوست اور رازدار ماں باپ سے بڑھ کر کوئی نہیں ہوسکتا اور اسی طرح جب بڑھاپے میں والدین بوڑھے ہونے کی وجہ سے زندگی کی رفتار کا ساتھ نہیں دے پاتے تو انکی تنہائی کا بہترین ساتھی انکی اولاد کے سوا کوئی نہیں ہوسکتا۔
اب ہم ایک اور قسم کی تنہائی کا ذکر کریں گے اس تنہائی کا شکار جس کا شکار اکثر ایسے لوگ ہوتے ہیں جنکی سوچ و فکر اپنے دور کے انسانوں سے بہت آگے ہوتی ہے اور انکی یہی خوبی انھیں تنہا کر دیتی ہے کیونکہ دوسرے انسان ان کی سوچ کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ دنیاۓ نفسیات کا جانا مانا نام کارل جُنگ اپنی کتاب Memories, Dreams, Reflections میں لکھتا ہے۔
Loneliness does not come from having no people about one, but from being unable to communicate things, that seem important to oneself, or from holding certain views which other finds inadmissible….if a man knows more than others, he becomes lonely.”
“تنہائی سے مراد یہ نہیں ہوتی کہ اس شخص کے آس پاس انسان نہیں ہوتے بلکہ وہ جن باتوں کو اہم سمجھتا ہے انھیں دوسروں سے کہہ نہ سکے کیونکہ دوسرے انسانوں کے لیے وہ خیالات ناقابلِ قبول( یا ناقابلِ برداشت) ہوتے ہیں۔۔۔۔۔اگر ایک انسان کا علم دوسرے انسانوں سے بڑھ جاۓ تو وہ تنہا رہ جاتا ہے۔”
یہاں ہم جس تنہائی کا ذکر کر رہے ہیں وہ معاشرے کے نابغہ روزگار افراد ہوتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ اکثر افراد کی عظمت کا اعتراف ان کے مرنے کے بعد ہوتا ہے وہ اس لیے کہ جب وہ زندہ تھے تو انکا فہم و ادراک اپنے دور سے بہت آگے تھا اور نئے دور کے انسان نے جب انکی باتوں کو سمجھا تو وہ نابغہ روزگار ہستیاں اس دنیا سے جا چکی تھیں۔ ایک حقیقت اور یاد رکھیے گا کہ ایسی نابغہ روزگار ہستیوں کے ساتھ سب سے زیادہ ظلم و زیادتی مذہب پرستوں نے کیں اسکے لیے آپ تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھ لیں عیسائیت اور اسلام کے مذہب پرست طبقے نے اپنی اپنی نابغہ روزگار ہستیوں کے ساتھ کیا کچھ کیا۔