جہلم کے قلعے روہتاس میں سیڑھیوں والا گہرا کنواں دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے جس سے پورے کے پورے فوجی لشکر پانی پیا کرتے تھے۔
اس کنویں یا باؤلی کو پہاڑیوں کے دامن میں شیرشاہ سوری کے عہد میں بننے والے قلعے کی مضبوط فصیلوں کے اندر سوالیہ نشان کی مانند بنایا گیا۔ پہاڑوں کو کاٹ کر بنایا گیا یہ کنواں قلعے میں موجود ہزاروں فوجیوں کی آبی ضرورت پوری کرتا تھا۔
تاریخ دان و مصنف راجہ نور نظامی کا کہنا ہے کہ اس کنویں کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں سارا پتھر کاٹ کر لگایا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس کی 140 سیڑھیاں ہیں جو پانی تک جاتی ہیں اور ہر 15 سیڑھیوں کے بعد ایک چوڑی سیڑھی بنائی گئی ہے جہاں پر ٹھہرنے کی جگہ ہے۔
اس کنویں کی تعمیر کو صدیاں گزر چکیں لیکن موسم کے وار بھی اس کی مضبوط دیواروں کو شکست نہ دے سکے۔ اس کا فن تعمیر بھی مختلف ثقافتوں کا خوبصورت سنگم ہے۔ زیر زمین آبی نظام کے تحت پانی اس باؤلی میں پہنچایا جاتا تھا۔
ٹیکسلا انسٹیٹیوٹ آف ایشین سویلائزیشن، اسلام آباد کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر سید عارف کا کہنا ہے کہ اس کنویں میں بہت وافر مقدار میں پانی ہوتا تھا یہاں پر پوری افواج اور لوگ پانی پیا کرتے تھے جہاں تک اس کی سورس کا تعلق ہے تو یہاں پر انڈر گراؤنڈ اسٹریمز کے ذریعے پانی لایا گیا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ آج بھی اس میں پانی موجود ہے لیکن ارد گرد آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے اور کلچر کی معلومات نہ ہونے کے باعث لوگوں نے اس کے اندر پتھر پھینک پھینک کر اسے بند کر دیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر اسے حکومت دوبارہ ٹھیک کروائے تو یہ ایک بڑا اثاثہ ثابت ہوسکتا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ یہ باؤلی شیرشاہ سوری کی دور اندیشی اور عسکری حکمت عملی کی ایک زندہ مثال