جہلم (صائمہ سحر )
صحافی کو سچ بولنا مہنگا پڑ گیا ۔
تھانہ سرائے عالمگیر میں صحافی خرم شہزاد پر وحشیانہ تشدد، 35000 نکال لیئے ، موٹر سائیکل کو ڈنڈے مار کر توڑ ڈالی
صحافت ایک معزز پیشہ ہے جو آج کل خودغرضی اور منافقت کی بھینٹ چڑھ چکا ہے ۔دیہاڑی باز افراد صحافت کی آڑ میں مزموم مقصد پورے کرنے کی کوشش میں لگے رہتے۔اور اس خود غرضی اور مطلب پرست زمانے میں سرائے عالمگیر کے علاقے دندی کے رہائشی چوہدری خرم شہزاد جو کہ ایک سلجھے ہوئے اور ذمہ دار انسان ہونے کے ساتھ ساتھ صحافت کی زمہ داری بھی احسن طریقے سے سرانجام دے رہے۔آرمی میں بھی کچھ وقت جاب کی پھر ٹھیکداری سے رزق حلال کمانے لگے اور سرائے عالمگیر دندی اور اردگرد کے کسی بھی علاقے میں کوئی پریشان ہوتا تو مسئلے کے حل کے لئے چوہدری شہزاد سے رابطہ کرتا۔اور عوام الناس کی خدمت کرتے اور معاشرے کی آواز بنتے چوہدری خرم شہزاد اپنے دشمن بڑھاتے گئے۔اور پھر اسی کا فائدہ تیرہ اپریل 2021 کو تحریک لبیک کے احتجاج کی کوریج کرتے ہوئے چوہدری خرم شہزاد کو ایک پولیس والے نے نام پوچھا اور بتانے پر اہلکار بولا تمھیں ہم کل سے ڈھونڈ رہے اور مارنا شروع کردیا۔100 سے زائد پولیس اہلکاروں نے تشدد کا نشانہ بنایا ۔چوہدری خرم آر این این نیوز چینل کے رپورٹر اور صدائے پھوٹھوہار کے گجرات سے بیورو چیف ہیں ۔موبائل سے ڈیٹا ڈیلیٹ کیا گیا موبائل توڑا گیا چوہدری خرم شہزاد کی سے 35000 نکالا اور موٹر سائیکل کو ڈنڈے مار مار کر توڑ ڈالی اور سیٹ بھی کاٹ دی۔بےہوشی کی حالت میں کچھ دیگرلوگوں نے تھانے میں دیکھا تو بتایا کہ یہ صحافی ہےاور گھر بھیج دیا گیا۔میڈیکل سے سول ہسپتال نے انکار کردیا تو عدالت سے رہنمائی لیکر میڈیکل کروایا تو کچھ نام نہاد صحافیوں نے بلیک میل کرنے کی کوشش کی کال پر ۔کہ ہم نے چھڑوایا تھا تھانے سے تو ایس ایچ او سٹی سرائے عالمگیر کے خلاف میڈیکل رپورٹ جائے گی ہمارے نام کی عزت رکھو وغیرہ وغیرہ ۔اب سوچنے کی بات کی وہ صحافی پولیس کے لین دین میں شامل ہوتا ہے اور کیا اپنے تھانے میں تعلقات کی بناء پر مجرم بھی رہا کرواتا ہے خیر دو دن بعد شام کو صحافی نے میڈیکل نہ کروانے پر زور دیا اور رات ڈیڈھ بجے پندرہ اپریل کو چوہدری خرم کے گھر میں پولیس کی 8،9 گاڑیاں گئیں اور ایک پولیس اہلکار نے دیوار پھلانگی اور مین گیٹ کھول دیا۔اور گھر میں بغیر لیڈیز کانسٹیبلز کے چادر اور چار دیواری کے تقدس کی پامالی کرتے ہوئے خرم کو گرفتار کر کے لے گئے۔جہلم کے چند رجسٹرڈ صحافیوں نے ڈی ایس پی سٹی سرائے عالمگیر سے ملاقات کی تو وہاں ایس ایچ او سٹی نے بولا کہ میڈیکل کیوں کروایا خرم نے جب میں نے چھوڑ دیا تھا یہ سب گجرات پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے؟ کیا ایک ورکنگ جرنلسٹ کو دہشتگردی کے مقدمے میں گرفتار کرنا اور ایف آئی آر دینا گجرات پولیس کی من مرضی ، غنڈہ گردی نہیں ؟ کیا چوہدری خرم شہزاد کا سابقہ معزز شہری ہونےکا ریکارڈ کوئی قانونی حیثیت نہیں رکھتا؟یا پھر ایس ایچ او سٹی سرائے عالمگیر نے کوئی ذاتی رنجش نکالی اور صحافی کو تشدد کا نشانہ بنایا اور ٹانگیں بازو فریکچر کردئے ان سب کا جواب کون دے گا؟ ڈی پی او گجرات سے جہلم ،دینہ ،پنڈدادن خان، سرائے عالمگیر، لالہ موسی کے صحافیوں کا نوٹس لینے کی اپیل ہے۔کہ ایک ورکنگ صحافی چوہدری خرم شہزاد کے ساتھ ظلم کی انتہا کردی گئی جو کہ انصاف کا متلاشی ہے۔