کھاریاں (گل بخشالوی) کھاریاں رمضان بازار کے نام پر ڈرامہ، سنڈیوں سے بھرا غیر معیاری پرانا آٹا فروخت کیا جارہا ہے۔رمضان بازار میں چائینہ کا آٹااور چینی فروخت ہو رہی ہے،آج تو رمضان بازار میں کھاریاں فلور ملز کا ٹرک لگا ہوا تھا، لوگ بازار سے خریدا ہوا آٹا واپس کررہے ہیںیہ وہ خبر ہے جو گزشتہ رات کو کھاریا ں پریس کلب کے واٹس ایپ گروپ میں چل رہی تھی ۔ کھاریاں پریس کلب کےاخبار نویسوں کی اس خبر پر تعجب نہیں ہوا اس لئے کہ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا ہر سال رمضان بازار کے نام پر مخصوص لوگوں کےذاتی مفاد کے لئے یہ ڈرامہ رچایا جاتا ہے ، انتظامیہ کے ملازم بازار میں لگائے اپنے پنڈال میں خوش گپیوں میں لگے رہتے ہیں پولیسکے ملازم آنے جانے والوں پر نظر رکھے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کے سائے میں غریب سبزی فروٹ فروش دونوں ہاتھوں سےشہریوں کو غیر معیاری اشیاءفروخت کر کے لوٹ رہے ہوتے ہیں ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر انتظامیہ رمضان بازار میں اشیائےضرورت کے معیار کو نہیں دیکھتی تو رمضان بازار کے ڈرامے کی کیا ضرورت ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دکاندار اور ریڑھیوالوں کا ایمانی ضمیر مر جائے تو کوئی کیا کر سکتا ہے ۔ہمارے دیس میں تو رمضان المبارک مردہ ضمیروں کے لئے تو رحمتوں اوربرکتوں کا نہیں ناجائز اور حرام کمائی کا مہینہ ہے ، اور اس حرام خوری کی ابتداءسبزی اور فروٹ منڈی سے ہوتی ہے قیمتیں وہاںبڑھتی ہیں لیکن کھبی بھی انتظامیہ نے مارکیٹ کمیٹی سے نہیں پوچھا کہ رمضان سے دو دن پہلے نمبو دو سو روپے کلو تھے رمضان میںچار سو رپے کیوں ہو گئے ؟فلور ملز مالکان کو اگر سستے داموں آٹا فروخت کرنے پر مجبور کیا جائے گا تو وہ سال بھر کی جمع سوکھیروٹیا ں پیس کر روزہ داروں کو نہیں کھلائے گا تو کیاگندم کا نمبر ون آٹا کھلائے گا اس لئے ہم حکومت اور انتظامیہ کو الزام نہیںدے سکتے جب ضمیر مر جائے ایما ن کمزور ہو جائے تو ایسا معاشرہ پھر کسی قانو ن اورانصاف سے بے پروا ہو جاتا ہے۔