آج قومی اسمبلی کے ہونے والے تاریخی اجلاس میں فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے معاملے پر مشترکہ قرارداد لانے کا فیصلہ ، اجلاس جمعہ تک ملتوی

آج قومی اسمبلی کے ہونے والے تاریخی اجلاس میں فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے معاملے پر مشترکہ قرارداد لانے کا فیصلہ ، اجلاس جمعہ تک ملتوی

اجلاس سے خطاب میں وفاقی وزیر اسد عمر کا کہنا تھا کہ ہم نے دنیا کو پیغام پہنچانا ہے، اپوزیشن قرارداد میں شرکت کرنا چاہتی ہے تو کوئی اعتراض نہیں، قرارداد کل بھی پاس ہو جائے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سپیکر قومی اسمبلی کا اپوزیشن کے اعتراضات پر متفقہ قرارداد لانے کا کہتے ہوئے ایوان زیریں کا اجلاس بروز جمعہ مورخہ 23 اپریل تک ملتوی کر دیا۔

اس سے قبل تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی امجد علی خان نے یہ قرارداد پیش کی۔ مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اراکین نے اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے اپنی اپنی جماعتوں کی نمائندگی کی۔ تاہم پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔

قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کیلئے پارلیمنٹ سے رائے لی گئی ہے کہ اس اہم معاملے پر ایوان میں بحث کی جائے۔ یہ انتہائی حساس معاملہ ہے، اس کیلئے سپیشل کمیٹی ہونی چاہیے۔

پاکستان کے ایوان زیریں میں پیش کی گئی اس تاریخی قرارداد میں کہا گیا کہ بین الاقوامی امور ریاست کو طے کرنے چاہیں، کوئی گروہ دباؤ نہیں ڈال سکتا۔ تمام یورپی ممالک بالعموم اور فرانس بالخصوص کو اس معاملہ کی سنگینی سے آگاہ کیا جائے۔

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ تمام مسلم ممالک سے اس معاملہ پر سیر حاصل بات کرتے ہوئے اس مسئلہ کو اجتماعی طور پر بین الاقوامی فورموں پر اٹھایا جائے۔

قرارداد کے متن میں مذہبی معاملات پر احتجاج کیلئے ملک کے مختلف مقامات پر جگہ فراہم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نور الحق قادری کا ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس قرارداد کا ایک پس منظر ہے۔ ایک جماعت سڑکوں پر نکل آئی، بہت ساری جماعتوں نے ان کا ساتھ دیا، ہم نے اس جماعت کا موقف بار بار سنا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا طریقہ کار پر اختلاف ہو سکتا ہے لیکن منزل پر نہیں۔

نور الحق قادری کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے تھے کہ خون بہانے کے بجائے مسئلے کو ایوان میں حل کر سکیں، یہ قرارداد اس ارادے اور سوچ کی تکمیل ہے۔ حضور ﷺ کی ناموس کی جب بات آتی ہے تو ان سے محبت ہمیں اپنی جانوں سے بھی بڑھ کر ہے۔ یہ ہمارا ایمان اور عقیدہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جو تعلق عمران خان کا نبی ﷺ سے ہے، وہ کسی مولوی یا پیر کا نہیں ہے، اس تعلق کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔ حضور ﷺ کی ناموس کے لیے مزید اقدامات سیاسی وسفارتی سطح پر اٹھائے جائیں گے۔

وفاقی وزیر اسد عمر کا ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وزیراعظم نے جس طرح دنیا میں آواز اٹھائی، کسی مسلم ممالک نے نہیں اٹھائی۔ ہم چاہتے ہیں کہ آئندہ دنیا میں ہمارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے کی جرات نہ ہو۔ ایک دوسرے پر حملہ کرکے یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ مجھے یقین ہے کہ اس کے حل کا ہراول دستہ پاکستان ہوگا۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال کا قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں کہنا تھا کہ اس قرارداد پر بہت ساری چیزوں کی وضاحت چاہیے۔ قرارداد میں لکھا ہے کہ بین الاقوامی معاملات ریاست کو طے کرنے چاہیں، ہم جاننا چاہتے ہیں کہ اس حوالے سے ریاست کا کیا موقف ہے؟

احسن اقبال نے کہا کہ ناموس رسالت ﷺ کی قرارداد میں سب کی رائے لی جائے، سپیکر حکومت کو ہدایت کریں کہ اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر قرارداد کو اتفاق رائے سے لایا جائے۔

لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ ابھی وزیر نے کہا کہ جو معاہدہ کیا گیا وہ تبدیل نہیں ہو سکتا، کیا وہ معاہدہ ایوان سے بھی بالاتر ہے؟ پھر ہم سب کو اپنے گھروں پر چلے جانا چاہیے۔ افواج اور سیکیورٹی اداروں کے مسئلے ایوان پر بحث ہو سکتی ہے تو معاہدے پر کیوں نہیں؟ اس معاہدے کو ایوان میں پیش کیا جائے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ اس اہم موقع پر وزیراعظم کہاں ہیں؟ سب سے بڑا ایوان ناموس رسالت ﷺ کے حوالے سے بحث کر رہا ہے لیکن یہاں وزیراعظم موجود نہیں ہیں۔ ، اس سے زیادہ اہم مسئلہ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ آج توقع تھی کہ وزیراعظم خود ایوان کو اعتماد میں لیں گے لیکن نہ تو عمران خان اور نہ ہی ان کے کسی وزیر میں قرارداد پیش کرنے کی جرات ہوئی۔ قرارداد کو وزیر داخلہ یا وزیر مذہبی امور پالیسی بیان دے کر قرارداد پیش کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں