وزیر ِ اعظم سے ملاقات سے پہلے راجہ ریاض کہتے تھے کہ وہ وزیر اعظم کو جہانگیر ترین کے خلاف مقدمات میں شہزاد اکبر کے علاوہچند بیوروکریٹس کے مبینہ کردار کے بارے میں بھی آگاہ کریں گے۔ جہانگیر ترین کے حامی ارکان پارلیمنٹ حکمران جماعت میں کوئیدراڑ نہیں ڈالنا چاہتے بلکہ وہ اس جماعت کو مضبوط کرنے کے لیے کوشاں ہیں پاکستان تحریک انصاف کو اقتدار میں لانے کے لیےجہانگیر ترین کے کردار کو کسی طور پر بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
سپریم کورٹ جہانگیر ترین کو اثاثے چھپانے کے الزام میں عمر بھر کے لیے نا اہل قرار دے چکی ہے۔ملک میں چینی بحران سےمتعلق تشکیل پانے والے کمیشن نے جو رپورٹ حکومت کو پیش کی تھی اس میں جہانگیر ترین کی شوگر ملز کا نام بھی شامل تھا جنھوںنے پنجاب حکومت سے سبسڈی لینے کے باوجود مہنگے داموں چینی فروخت کی۔جہانگر ترین اور ان کے بیٹے کے خلاف منی لانڈرنگکا مقدمہ درج ہے اور اس مقدمے میں ملزمان نے ضمانت قبل از گرفتاری کروا رکھی ہے۔جہانگیر ترین ماضی میں وزیر اعظم کےپرنسپل سیکرٹری اعظم خان پر یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ شوگر کمیشن کی رپورٹ کو پبلک کرنے میں ان کا ہاتھ تھا۔ تجزیہنگاروں کا کہنا ہے کہ اگر مرکز سے پاکستان تحریک انصاف کے ہم خیال گروپ کے 11 ارکان اور پنجاب سے 22 ارکان الگ ہوگئے تو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ختم ہو سکتی ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے جہانگیر ترین کے حامی ارکان پارلیمنٹسے ملاقات کے لیے ایک اعلی سطح کی کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں وزیر دفاع پرویز خٹک کے علاوہ اسد عمر بھی شامل تھے تاہمجہانگیر ترین نے اس اعلی سطح کی کمیٹی کے ساتھ ملاقات سے انکار کر دیا تھا اور کہا تھا کہ ان کے حمایتی ارکانِ پارلیمنٹ صرفوزیر اعظم سے ملاقات کریں گے۔
مسلم لیگ ن کے ترجمان جیو ٹی وی کے اینکر وینکر کامران خان جیسے تجزیہ نگار عمران خان کو کہتے ہیں ، جہانگیر ترین کے مسئلے پرجوش سے نہیں ہوش سے کام لیں۔ جہانگیر ترین چوتھی بڑی سیاسی قوت بن گئی ہے جہانگیر ترین کے تعاون کے بغیر مرکز اورپنجاب میں حکومت منٹوں میں ڈھیر ہو جائے گی ۔ اپوز یشن نے عمران خان جہانگیر ترین ملاقات سے پہلے اپنا دل بھی پشاوری کیاخوب بغلیں بجائیں لیکن ملاقات کے بعد جیو نیوز اور اپوزیشن نے دیکھ لیا کہ ترین کے بغیر بھی خان ،خان ہے اس لئے کہ وہ جانتاہے جن کے پاﺅں ان کی چادر سے باہر نکلے ہیں ان کو عوام نے عمران خان کے لئے ووٹ د یئے ہیں اور عمران خان کو اپنے خدااور طاقت کے سر چشمہ عوام پر ایمان اور بھروسہ ہے وہ کہتے ہیں میں نے اپنی کشتیا ں جلا دی ہیں اپنے مشن میں کامیابی ہوگی یاموت آئی گی وہ کہتے ہیں کہ قومیں بمباری یا کم وسا ئل سے نہیں کرپشن سے تباہ ہوتی ہیں بد عنوانی سے فائدہ اٹھانے والا ہر شخصمیرے خلاف ہے ان شا ءاللہ قانون کی بالا دستی قائم ہو گی اور تحریک ِ انصاف مافیا کے خلاف جنگ جیت کر رہے گی!
کرورونا کے سنگین وبائی صورت حال میں پاکستان نہ کپے کا نعرہ لگانے والا جاوید لطیف تو جیل جا کر خاموش ہو گیا لیکن بلاولزرداری، شاہ کے وفادار طلال چوہدری، رانا ثناءاللہ، عطا تارڑ، احسن اقبال، شاہد خاقان عباسی، مریم اورنگ زیب اور ان کیشہزادی مریم صفدر اگر ضرورت سے کچھ زیادہ بول رہی ہیں تو اسلئے کہ یہ سب جان گئے ہیں کہ ان کا سیا سی مستقبل تاریک ہےان کے خواب ادھورے رہ گئے ہیںسیاست میں خود کو زندہ رکھنے کے لئے اگر بول رہے ہیں تو انہیں بولنے دیں وہ بخوبی جانتے ہیںکہ عمران خان کی حکمرانی کے سر پر جن کا ہاتھ ہے ان کو نظر انداز نہیں کرسکتے ویسے بھی ٹی وی اینکرز وینکرز کی آرمی جیف سےملاقات میں خاص کر حامد میر اور سلیم صافی کو اپنی اہمیت اور حیثیت کا اندازہ ہو گیا ہوگا
آ رمی چیف نے حامد میر سے کہا گولیاں تو آپ پر بھی چلی تھیں آ پ ان کے خلاف ایف آ ئی آ ر درج کروائیں میں کہہ رہا ہوںآ پ کو اورآ پ یہ بھی جانتے ہیں کہ آ پ پر گولیاں جاوید مینگل نے چلوائی تھیں بتاتے کیوں نہیں؟
سلیم صافی کے سوال پر آ رمی چیف نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صافی صاحب آ پ جانتے ہیں کہ علی وزیر کا مسئلہ کیاہے ؟ ہمیں معلوم ہے کہ صحافی سفارتخانوں میں جاتے اور وہاں پر کیا گفتگو کرتے ہیں، اس پر حامد میر نے کہا کہ جو بات آپ کرتےہیں وہ ہم سے کاونٹر چیک کرتے ہیں، آ رمی چیف نے کہا کہ نہیں میر صاحب ایسا نہیں ہے، ہمیں پتہ ہے کون کیا باتیں کرتا ہے۔کسی اینکر نے سوال کیا کہ وہ لوگ کون ہیں؟ جس پر آ رمی چیف نے جواب دیا یہ سامنے بیٹھے ہیں۔ اس لئے پاکستان کے عوامبخوبی جانتے ہیں کہ جس ملک کو ماسک تک پہنانے کے لئے فوج کے ڈنڈے کی ضرورت ہو ۔سیلاب آئے تو شہریوں کی جان بچانےکیلئے فوج کو میدان میں اتارنا پڑے، الیکشن میں فوج نگرانی کے بغیر شفافیت نہ ہو ،جہاں الیکشن میں پریزائڈنگ افسر ہی غائب ہوجائیں،اس ملک کے سیاستدان ان حقائق کے باوجوداگرکہتے ہیں کہ فوج مداخلت نہ کیا کرے تو ایسی سوچ کے حامل سیاستدانوں کیسوچ پر قوم ماتم نہ کرے تو کیا کر ے