Gul-Bakshalvi

سِول ملازمین کے لیے ریٹائرمنٹ کے بعد کالونیاں کیوں نہیں بنا کر دیتے؟ کھاریا ں شہر کے شہریو !! جسٹس قاسم خان کے انصاف کو دیکھ لو .گل بخشالوی

 چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس قاسم خان لاہور ہائی کورٹ ایک نظر کھاریاں پر بھی۔ انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر آپ نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار حق و صداقت کا علم بلند کیا ہے آپ کے ریمارکس نے ثابت کردیا ہے کی آج عدلیہ آ زاد ہے یہ ہی وہ تبدیلی ہے جو سابق حکمرانوں اور ان کے عبادت گذاروں کو نظر نہیں آتی کاش حق اور سچ کا ساتھ دینے والے آپ جیسے عوام اور پاکستان دوست جج صاحبان کرسی ءانصاف کی اہمیت جان لئے تو آج پاکستان کے عام لوگ مظلوم نہ ہوتے کھاریاں شہر میں بھی شاملات ِ دہ پر اسی ادارے کا قبضہ ہے کھاریاں کے شہریوں نے انصاف کے لئے ہر در پر دستک دی لیکن کہیں پر بھی کوئی شنوائی نہیں ہوئی آج اس شاملا ٹ دہ پر ماڈل بازار ہے جس سے ماہانہ لاکھوں کی آمدنی حساس ادار ے کا ویلفر ٹرسٹ وصول کر رہا ہے اور کھاریاں کے وہ شہری جنہوں نے اپنے حصے کی ماں دھر تی کھاریاں چھاونی کی تعمیر کے لئے دی تھی آج چاروں طرف سے ادارے کے حصار میں ہیں اپنے بنیادی حقوق تک سے محروم ہیں

کھاریا ں شہر کے شہریو !! جسٹس قاسم خان کے انصاف کو دیکھ لو اب وقت ہے اپنی التجا کے ساتھ لاہور ہائی کورٹ میں اپنی پرانی درخواست کی گرد جھاڑ کر انصاف کے لئے پہنچ جاﺅ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس قاسم خان کیا کہتے ہیں دیکھ لو!!

  چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس قاسم خان نے متروکہ وقف املاک بورڈ کی اراضی پر قبضے کے کیس میں آرمی کے خلاف گذشتہ سماعت پر دئیے گئے ریمارکس حذف کرنے کی ڈی ایچ اے کے وکیل کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ اگر سرونگ اور ریٹائرڈ لوگ ڈی ایچ اے میں کوئی بے ضابطگی کرتے ہیں تو کس کا نام بدنام ہوتا ہے؟ قانون سب کے لیے ہے ،ایک بات یاد رکھیں اس ملک کے 22کروڑ عوام سرحدوں پر بیٹھے فوجیوں کا سب سے زیادہ احترام کرتے ہیں ،اگر کوئی افسر ڈی ایچ اے ، جی ڈی اے ، ہائی وے ، سمیت مختلف اداروں میں آ ئیں گے تو پھر وہ جواب دہ بھی ہوں گے اور انکا احتساب بھی ہوگا ، انکے غیرقانونی اقدامات سے ادارہ بدنام ہوگا ، سب سے پہلے ان افسران کو اپنی ذمہ داری کااحساس کرتے ہوئے اپنے ادارے کی ساکھ کا خیال کرنا ہوگا میرے وہ ریمارکس آ رمی کے ادارے کے خلاف نہیں کچھ لوگوں کے کنڈکٹ کے خلاف تھے ، اپنے موکل کو سمجھائیں ، ملک کا قانون یہ ہے کہ کسی کی اراضی پر کوئی قبضہ کرلے تو قابض کے خلاف کارروائی ہوگی ،اگر میری جائیداد پر کوئی بندہ قابض ہو جائے تو میں بھی اس کو قانون کے بغیر نہیں نکال سکتا، میری فیملی کے بے شمار لوگ آ رمی میں بیٹھے ہوئے ہیں ، چیف جسٹس نے کہا اگر میں باہر جاکر کسی دکاندار سے لڑوں گا اور اپنے عہدے کا خیال نہیں کروں گا تو لوگ یہ نہیں کہیں گے کہ قاسم خان لڑ رہا ہے بلکے کہیں گے کہ چیف جسٹس ہائی کورٹ لڑ رہا ہے ، اس طرح اگر چند وکلاءباہر کسی ریڑھی والے کو مارتے ہیں تو انکا نام کوئی نہیں لے گا بدنامی وکلا ءکی ہوگی ، مجھے یہ سکھایا گیا تھا کہ جج کو جج نظر آ نا چاہیے ،اداروں کا احترام فوقیت ہے، عدالت کے ریمارکس کسی کا دل دکھانے کیلئے نہیں تھے کچھ لوگوں کے رویے کی وجہ سے ریمارکس تھے، چیف جسٹس قاسم خان نے مزید کہا کہ ہمارا آئین اقلیتوں کی اراضی اور عبادت گاہوں کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے ،جب دنیا کو یہ پتہ چلے کہ حکومت پاکستان نے اقلیتوں کے لیے وقف اراضی بیچ کر کھالیں ہیں تو دنیا کو کیا منہ دکھائیں گے ،یہ معاملہ اس وقت حکومت کے گلے پڑ جائے گا، یاد رہے کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس محمد قاسم خان نے اراضی پر قبضے سے متعلق ایک مقدمے میں ڈیفنس ہاو ¿سنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کے وکیل الطاف الرحمان کو ہدایت کی تھی کہ ’ڈی ایچ اے ایڈمنسٹریٹر بریگیڈئیر ستی‘ کو کہیں کہ وہ اپنے سٹار اور ٹوپی اتار کر آئے اگر ان کے خلاف قبضہ ثابت ہو گیا تو یہیں سے ہتھکڑی لگا کر جیل بھیجوں گا۔ اگر وہ اس مقدمے میں پیش ہونے سے ڈرتے ہیں تو آئی جی کو بھیج دیں۔خیال رہے کہ تین درخواست گزاروں حافظ ذوالفقار، راحیل طفیل اور ذیشان محبوب نے گذشتہ برس متروکہ وقف املاک سے بالترتیب 70 کنال، 50 کنال اور پانچ کنال اراضی حاصل کی تھی مگر ان کے مطابق ڈی ایچ اے نے انھیں کسی بھی قسم کی تعمیر سے یہ کہہ کر روک دیا کہ یہ زمین پہلے ہی ڈی ایچ اے کے استعمال میں ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ فوج تو سب سے بڑا قبضہ گروپ بن چکی ہے۔ فوج نے لاہور ہائی کورٹ کی 50 کنال زمین پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ایسا تو کوئی بڑے رسہ گیر بھی نہیں کرتے۔ ’یہ سب صرف اس لیے کیا جا رہا ہے کہ فوج طویل عرصہ اقتدار پر قابض رہی ہے اور اپنی مرضی کی قانون سازی کرتی رہی ہے۔ وردی والے جرم کریں تو وہ بچ نہیں سکتے۔ آرمی کی وردی پہننے کا مطلب یہ نہیں کہ لوگوں کی جائیدادوں پر آپ قابض ہو جائیں ملک کے ساتھ کھلواڑ چھوڑ دیں، کل ہی رجسٹرار کی مدعیت میں مقدمہ درج ہو گا۔ ’پراپرٹیز‘ پر قبضے چھوڑ دیں۔ ہم یہاں غریبوں کے لیے بیٹھے ہیں۔ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ سپاہیوں کی چار پانچ گاڑیاں بھریں اور قبضہ کرنے چلے جائیں۔ ’وردی والا جرم کرے تو وہ بھی جرم ہے، چاہے وہ فوجی وردی ہو یا پولیس کی وردی۔‘ لاہور پولیس کے سربراہ سی سی پی او غلام محمود ڈوگر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ڈی ایچ اے نے اندھیر نگری بنائی ہوئی ہے، اگر ان سے ڈرنا ہی ہے تو نوکری چھوڑ دیں۔ جسٹس قاسم خان نے ہدایت کی کہ جیسے ہی ڈی ایچ اے کے خلاف کوئی درخواست آئے تو فوری طور پر مقدمہ درج کریں۔

 ‘ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ انھوں نے کسی سے ڈر کے 11 سال نوکری نہیں کی۔ عزت کے لیے یہاں بیٹھا ہوں، نہیں تو اور بھی بہت سے ذرائع تھے

سماعت کی دوران چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ آرمی کے ریٹائرڈ لوگوں کے لیے زیادہ ویلفیئر ہے، کیا انھوں نے قوم کی زیادہ خدمت کی ہے؟ جسٹس قاسم خان نے سوال اٹھایا کہ سِول ملازمین کے لیے کوئی ویلفیئر کیوں نہیں؟ ریٹائرمنٹ کے بعد انھیں کالونیاں کیوں نہیں بنا کر دیتے؟ کیا آرمی کے ساتھ پولیس اور دیگر اداروں کے افراد نے قربانیاں نہیں دی ہیں۔

۰۳ ، اپریل، ۲۱۰۲ئ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں