Gul-Bakshalvi

جمہوریت کے نام پر عوام سے یہ مذاق کوئی نئی بات نہیں. گل بخشالوی

 پاکستان پیپلز پارٹی کے سید غنی کا کہنا ہے کہ کراچی کے حلقہ انتخاب این اے 249 کے ضمنی انتخاب پیپلز پارٹی نے تاریخی فتح حاصل کی ہے عوام نے مہنگائی کی وجہ سے تحریک ِ انصاف کو مسترد کر دیا ہے اگر سید غنی یہ کہتے کہ پیپلز پارٹی کی لاٹری نکل آئی ہے اللہ نے ان کی جماعت کی عزت بچائی ہے تو بڑی بات ہوتی اس لئے کے ڈالے گئے 72740 ووٹروں میں 16156 ووٹروںنے پیپلز پارٹی کو اعتماد کا ووٹ دیا اور 56584 ووٹروں نے سندھ میں 13سالہ حکمرانی کے باوجود پیپلز پارٹی کومسترد کیا اس لئے پیپلز پارٹی کو چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کا مقام ہے لیکن وہ خود کو عوامی سطح پر مسترد ہونے کا جشن منا رہی ہے

  مسلم لیگ ن جو ابتدائی نتائج کے دوران بھنگڑے ڈال رہی تھی اب حسب ِ سابق اپنے ووٹ چوری ہونے کا رونا رو کر ماتم کر رہی ہے خو ش بختی ہے تحریک ِ انصاف کی کہ ضمنی الیکشن ہار گئی ورنہ آج کل کے بہن بھائی ایک ساتھ دھاندلی کا شور مچا کر پاکستانیوں کا جینا حرام کر دیتے لیکن کل کے پیارے آج کے بے چارے آپس میں ایک دوسرے کا لباسِ شاہانا ا تار رہے ہیں ۔

اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ ضمنی انتخاب عوام اور جمہوریت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے ، 25سے زیادہ امیدوار میدان میں تھے 21’64ے تناسب سے 72740 ووٹ پول ہوئے جن میں 731 ووٹ مسترد ہوئے پیپلز پا رٹی کو 16156،مسلم لیگ ن کو 15473 ،تحریک ِ لبیک کو 11125 ، مصطفی کمال کو 9227 ، تحریک ِ انصاف کو 8922 ، ایم کیو ایم کو 7511 اور دوسرے امیدواروں کو مجموعی طور پر 20484 ووٹ ملے ، پیپلز پارٹی کو 16156 ووٹ دینے والے جیت گئے او ر دوسر ے امیدواروں کو 56584 ووٹ دینے والے ہار گئے ۔

اچھا ہے ایم کیو ایم کی بھی ہوا نکل گئی اور مصطفی کمال کے بھی ہوش ٹھکانے آ گئے کراچی اور حیدر آباد کی یہ علاقائی پارٹیاں اپنی اپنی اناﺅں کے آسمان پر بیٹھ کر سند ھ پر حکمرانی کا خواب دیکھ رہی ہیں یہ لوگ پیپلز پارٹی کے کاسہ لیس ہیں یہ لوگ اپنے چاہنے والوں کی چاہت کا مذاق اڑا رہے ہیں اگر یہ لوگ واقعی سندھ کے عوام کو پیپلز پارٹی سے نجا ت دلانا چاہتے ہیں سندھ میں حکمرانی کی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو انہیں اناﺅں کے آسمان سے اتر کر ایک ہونا ہو گا اگر یہ مشترکہ طور پر ایک امیدوار کے ساتھ انتخابی میدان میں اترتے تو ان کو انفرادی طور پر ملنے والے (مصطفی کمال کے 9227 ، ایم کیو ایم کو 7511 )ووٹ مجموعی طور پر 16738ووٹ ہوتے اور پیپلز پارٹی سے 582 ووٹ کی اکثریت سے ضمنی الیکشن جیت جاتے اور اگر ان کا تحریک ِ انصاف سے انتخابی اتحاد ہوتا تو یہ اکثریت 9504 ووٹ کی ہوتی ۔ بدقسمتی سے یہ لوگ ذات کی حصار سے نکلتے نہیں اور عوام کے اعتماد کا مذاق اڑاتے ہیں لیکن پاکستان میں جمہوریت کے نام پر عوام سے یہ مذاق کوئی نئی بات نہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں