Gul-Bakshalvi

پاکستان کی خوبصورت بقا کے لئے صدارتی نظامِ جمہوریت وقت کی ضرورت ہے. گل بخشالوی

وفاقی وزیر اسد عمر کہتے ہیں کہ وزیر ِ اعظم کسی بھی وقت اسمبلیاں توڑ سکتے ہیں ا س لئے کہ سیاسدان اگلے ا لیکشن کو سوچتے ہیں اور لیڈر آنے والی نسلوں اور خوبصورت قومی مستقبل کو سوچتے ہیں عمران خان ایک لیڈر ہے۔ ا سد عمر کے اس بیان پر تنخوادار تجزیہ نگاروں کو اپنی دال روٹی کی فکر لگ گئی ہے کہتے ہیں اسمبلیاں ٹوٹنے سے عدمِ استحکام آئے گا حالانکہ عدمِ استحکام نہیں بلکہ قومی لٹیروں کو کچھ آرام آجائے گا
کراچی کے ضمنی انتخاب سے قبل گلگت بلتستان اور ڈسکہ میں عوام کے ووٹ کے تقدس کو مجروح کیا گیا تھا اس لئے کراچی کے غیرت مند شہری اپنا حق رائے دہی کے لئے گھروں سے باہر نہیں نکلے جو نکلے وہ اپنی اپنی جماعتوں کے کاسہ لیس اور درباری تھے ان کے بھنگڑے ان کی مجبوری تھی تمام جماعتوں نے اپنی شکست کو تسلیم نہیں کیا حسب سابق دھاندلی کا رٹ لگا کر انتخابی عمل پر عدمِ اعتماد اور ماتم کیا ،5 فیصد سے بھی کم ووٹ لینے والی جماعت پیپلز پا رٹی نے اپنی کامیابی کو اپنی تاریخی فتح قرار د ے دیا، انتخابی نتیجے کا سرکاری اعلان روک دیا گیا کوئی دوبارہ گنتی کا راگ الاپ رہا ہے تو کوئی دوبارہ الیکشن کے لئے ماتم کر رہا ہے قوم حیران اور پریشان ہے کہ اگر عوامی فیصلے کو تسلیم ہیں نہیں کیا جاتا تو الیکشن کا ڈرامہ رچانے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے
دھاندلی دھاندلی کے شور کو ختم کرنے کے لئے وزیر اعظم عمران خان نے انتخابی اصلاحات پر مشاورت کے لئے اپوزیشن کو دعوت دی لیکن یہ دعوت بھی مسترد کر دی گئی ا نتخابی اصلاحات بھی نہیں چاہتے تو پھر روتے کیوں ہیں، انتخابی عمل میں عوام کا فیصلہ تسلیم ہی نہیں کرنا تو پھر الیکشن کا ڈرامہ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے
بیرون پاکستان ، اپنے دیس کا درد محسوس کرنے والے چوہدری نذیر ا حمد اپنے ایک مراسلے میں لکھتے ہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ موجودہ بدترین پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں تبدیل کیا جائے ، صدر براہ راست قوم کے ووٹوں سے منتخب ہو جسے اپنی کابینہ قابلیت کی بنیاد پر ٹیکنوکریٹ میں سے منتخب کرنے کا حق حاصل ہو ۔ کابینہ صدر اور صدر پارلیمنٹ کو جواب دہ ہو۔ صوبے ختم کر کے یورپ کے اکثر ممالک کی طرح ریجن بنائے جائیں (اس طرح صوبائی اور علاقائی تعصب کا بھی خاتمہ ھو گا) اور مضبوط بلدیاتی نظام کے تحت ضلعی حکومتیں، میئرز، جنرل کونسلرز بااختیا ر ہوں گے صوبائی گورنرز، وزرائے اعلیٰ اور صوبائی اراکین اسمبلی پر اٹھنے والے غیرضروری اخراجات و پروٹوکول کا خاتمہ ہو گا اور علاقائی ترقی سے ملک ترقی کرے گا۔متناسب نمائندگی کی بنیاد پر انتخابات ہوں تاکہ الیکٹ ایبلز/ بلیک میلرز کا خاتمہ ہو پڑھے لکھے اور قابل لوگ سامنے آ سکیں، تانگہ پارٹیوں سے نجات کے لئے جو پارٹی 10 فیصد سے کم ووٹ لے ایسی علاقائی جماعتوں پر پابندی لگائی جائے وطن عزیز میں دوچار قومی جماعتوں سے انتخابی عمل میں استحکام آئے گا ضمیر کے سوداگر آ زاد منتخب اراکینِ اسمبلی سے نجات ملے گی بلیک میلنگ و بادشاہ گری کا خاتمہ ہو گا ۔ اس لئے کہ پاکستان میں پارلیمانی نظا مِ جمہوریت بلیک میلنگ کا دوسرا نام بن چکا ہے . اب پاکستان اس گلے سڑے
نظامِ کا متحمل نہیں ہو سکتا
ایک اعلیٰ عہدے پر فائز سرکاری افسر کہتے ہیں کہ کراچی کے الیکشن نے ثابت کر دیا کہ عوام کو اب پارلیمانی نظامِ جمہوریت کے نام سے نفرت ہو گئی ہے پاکستان میں چور،ڈاکو، اور لٹیرے سیاست دانوں پر سے عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہے پارلیمانی نظامِ جمہور ت کو خیر با د کہنے اور صدارتی نظام جمہوریت کا وقت آگیا ہے

اگر قومی ادارے پاکستان سے حقیقی معنوں میں محبت کرنے والے ہم پاکستانی اور وزیر ِ اعظم عمران خان پاکستان کو ریاست ِ مدینہ بنانا اور کہلوانا چاہتے ہیں تو ا نہیں
ا رتغرل غازی کے کردار میں سامنے آنا ہو گا پاکستان کی آن اور شان پر قربانی کے جذبے سے سر شار وقت کے سلطان علاوالدین ( آرمی چیف )کا دست ِ مبارک
ان کے شانے پر ہے نظام عدل کے کوپیکوں کو اپنے قبیلے کی خاتو ن کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر ماڈل ٹاﺅ ن کے معصوموں کا قتل عام نظر انداز کرنے والوں کو عبرت ناک انجام تک پہنچانے کے لئے اور اپنے قول کامیابی یا موت کو عملی جامہ پہنانے کے لئے قومی اور مذہبی کردار میں سا منے آنا ہو گا۔ مغربی آقاﺅں کی علمبردار انتہا پسند مذہبی جماعت ٹی ایل پی کی فرانس کے خلاف پر تشدد مظا ہروں کے رد ِ عمل میں یوپی یونین کے 3 کے مقابلے میں 681 ممبران فرانس کی حمایت میں کھڑے ہو گئے ہیں اب وقت ہے کہ قومی غداروں،چوروں اور لٹیروں کیفر ِ کردار تک پہنچایا جائے ۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں قومی غیرت کا جنازہ نکالنے والے نا نہاد عوامی نما ئندوں سے، حکمران جماعت میں اور اتحادی جماعتوں کے بلیک میلروں سے نجات دلا کر ان کی تنخواہوں اور مراعات کے اربوں روپے سے قومی قرضے اتارے جائیں ۔ سپریم کورٹ، افواجِ پاکستان اور وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی خوبصورت بقا چاہتے ہیں تو خدا را نام نہاد پارلیمانی جمہوریت پسندوں سے نجات کے لئے صدارتی نظامِ جمہوریت کے لئے قدم بڑھائیں

۲ مئی ۱۲۰۲ئ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں