ایک باکمال جوڑے کی لازوال محبت کی بے مثال کہانی ! گل بخشالوی ( بحوالہ عامر عثمان عادل)

ابھی میٹرک پاس کیا ہی تھا کہ بیاہ دی گئی ۔ تشنگی علم نے بیقرار کیا تو دو بچوں کی ماں نے کالج میں داخلہ لے لیا سسر کی ترغیب اور خاوند کے اعتماد مان اور تعاون نے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا تو وفا شعار بیوی اور سلیقہ شعار ماں نے تاریخ رقم کر دی ۔یو نیورسٹی آف گجرات بی اے کے امتحان میں ٹاپ پوزیشن حاصل کرنے والی خاتون ضلع گجرات کے قصبہ گلیانہ میںاپنے وقت کے نامور ماہر تعلیم الحاج محمد اسلم بھٹی ہڈ ماسٹرکی بہو اور ان کے صاحبزادے عزیز الرحمن مجاھد کی شریک ِ حیات ہیں میٹرک کے سالانہ امتحان میں امتیازی پوزیشن حاصل کرنے والی عزیز الرحمان کی شریک ِ حیات کو اللہ نے پہلی بیٹی کی صورت میںرحمت سے نوازا تو آنگن میں بہار آ گئی دو سال بعد اولاد نرینہ کی نعمت سے گود ہری ہوئی تو اس کھر آنگن کی خوشیاں دیدنی تھیں لیکن گھر گرہستی اور بچوں کی پرورش کے باوجود من سے علم کی پیاس برقرار رہی ماہر تعلیم سسر کی بھی خواہش تھی کہ ان کی بہوعلمی دینا میں ان کی پہچان ہو جائے تو اس نے اپنے مجازی خدا عزیز الرحمان سے اپنی خواہش کا اظہار کر دیا کہ وہ کالج میں داخلہ لینا چاہتی ہے وہ جانتا تھا کہ بیگم کی اس خواہش کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا مطلب اپنی آزادی کو قربان کرنا ہو گا بیگم کالج میں داخلہ لے گی تو اس کی غیر موجودگی میں بچوں کی دیکھ بال اور گھر ہستی کی دوسری ذمہ داریاں بھی بڑھیں گی لیکن ابا جی کے احترام اور زوجہ کی محبت نے اسے یہ بھاری ذمہ داری اٹھانے کا حوصلہ دے دیا !

زینب عزیز الر حمان نے گورنمنٹ گرلز کالج گلیانہ میں سال اول میں داخلہ لے لیا صبح سب کو ناشتہ کروا کے یہ کالج روانہ ہو جاتی اور بچوں کے ابا انہیں بہلانے کی کوشش میں لگے رہتے کالج سے واپسی پر بچوں کی دیکھ بھال گھر کے کام کاج اس کے ساتھ ساتھ پڑھائی ،سسر صاحب فراش ہوئے تو اس کی ذمہ داریاں اور بھی بڑھ گئیں کبھی بچے بھی بیمار پڑتے تو اس کا ضبط جواب دینے لگتا کئی بار ارادہ کیا کہ یہ نہیں ہو گا مجھ سے بہتر ہے پرائیویٹ تعلیم حاصل کر لوں

لیکن کالج کی پرنسپل طیبہ حمید جو انتہائی شفیق اور ہمدرد خاتون ہیں اس لمحے اس کا حوصلہ بن گئیں ہر ممکن تعاون کیا اسے اپنی تعلیم جاری رکھنے کی تاکید کی اور ہر قدم اس زینب کا ساتھ دیااس دوران جب ان کے سسرہڈ ماسٹر الحاج محمد اسلم بھٹی کا انتقال ہوا تو ذمہ داریاں مزید بڑھ گئیں۔ بچوں کے سکول جانے کی عمریں بھی ہو چکی تھیں کیسا خوش کن منظر ہوتا جب صبح سویرے بچوں کو اسکول کے لئے تیار کرنے کے ساتھ ساتھ اسے خود بھی کالج جانے کے لئے تیار ہونا پڑتا ،کمال حوصلہ تھا عزیز الرحمان مجاہد کا صبح بچوں کو اسکول اور زوجہ کو کالج چھوڑنا پھر واپس لینا اور اس فرض کو لگا تار چار سال نبھانا واقعی مجاہدانہ عزم تھا

، اور زینب نے کالج سے یونیورسٹی تک کے سفر میں اپنی ثابت قدمی سے تعلیمی سلسلہ جاری رکھا 4۔ مئی 2021 کو جامعہ گجرات نے بی اے سالانہ امتحان 2020 کے نتائج جاری کر دئیے توزینب کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس کا نام لوح اعزاز پہ سب سے اوپر لکھا جا چکا ہے گورنمنٹ گرلز کالج کی پرنسپل صاحبہ نے فون کر کے اسے خبر دی کہ تم نے یونیورسٹی بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کر لی ہے یہ اعزاز تھا اس کی مادر علمی کا وہ بھی سرکاری کالج اور ایسے وقت جب بورڈز اور جامعات کے وکٹری اسٹینڈز پر نجی کالجز کا راج ہے یہ افتخار تھا اس گھرانے کا جہاں ایک سسر نے اپنی بہو کو پڑھنے کی ترغیب دی اور خاوند نے آزادی اور اعتماد

شاباش زینب ! تم نے اپنے سسرال کا نام روشن کر کے ایک نئی ریت کو جنم دیا ۔ہاں تم نے عورت کے ہر روپ کو توقیر بخشی ہے آج تمہارے دم قدم سے بہو ، بیٹی بیوی ماں سب رشتوں کو عروج ملا ہے تم لفظ ” عورت ” کا مان ہو گھرانے کی شان ہو مشرقیت کی پہچان ہو،آج تمہیں پڑھتا دیکھنے کی آرزو لئے پیوند خاک ہو جانے والے شفیق سسر زندہ ہوتے تو اس کامیابی پر کتنے خوش ہوتے لیکن یقین کرو ان کی روح آج شاداں و فرحاں ہو گی اور سچ پوچھو تو تمہارے اس کارنامے کا سارا کریڈٹ تمہارے سرتاج کو جاتا ہے جس نے ایثار محبت اور بھروسے کی قابل رشک مثال قائم کر دی کمال حوصلے سے بچوں کو سنبھالنے سے لے کر ہر ہر گام تمہارا ساتھ دے کر مردوں کو ایک راستہ دکھا دیا،نام نہاد آزادی کی چاہ میں عورت مارچ کے نام سڑکوں پر نکلنے والوں کو ایک بار تم سے ملنا چاہئے تاکہ اپنی آنکھوں سےدیکھ سکیں عورت کتنی آزاد ہے اور جب وہ اپنے وجود سے وابستہ مردوں کی انگلی تھام کر چلتی ہے تو نہ صرف سر اٹھا کر چلتی ہے بلکہ مینارہ نور بن جایا کرتی ہے

جگ جگ جیو زینب تمہیں بہت آگے جانا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں