مسجد اقصیٰ اور مقبوضہ بیت المقدس کے دیگر مقامات پر فلسطینیوں اور اسرائیلی پولیس کے درمیان گذشتہ رات جاری رہنے والی شدید جھڑپوں میں 200 سے زائد فلسطینی زخمی ہوگئے۔
اے پی نیوزکے مطابق گذشتہ کئی ہفتوں کی بے چینی کے بعد بیت المقدس میں یہ پرتشدد واقعات ہوئے ہیں۔ یہ بات واضح نہیں ہو سکی کہ آخر یہ پرتشدد واقعات کا سلسلہ کس وجہ سے شروع ہوا۔
ہزاروں مسلمان نمازی وسیع وعریض پہاڑی پر مغرب کی نماز ادا کر رہے تھے۔ اسرائیلی پولیس کی بھاری نفری وہاں تعینات تھی، اسی دوران فساد شروع ہو گیا۔
مظاہرین کے بڑے گروپ رات بھر سنگباری کرتے دکھائی دیئے۔ اسرائیلی پولیس نے مظاہرین پر ربڑ کی گولیوں برسائیں اورآنسو گیس پھینکی۔
فلسطینی ہلال احمر کی ایمرجنسی سروس نے بتایا کہ زخمیوں میں سے88 کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔
فلسطینی وزارت صحت کے مطابق 83 افراد ربڑ کی گولیوں سے زخمی ہوئے جن میں تین کی آنکھ میں گولی لگی ہے جبکہ دو کو سر میں شدید چوٹیں آئی ہیں، دو افراد کے جبڑے ٹوٹ گئے ہیں۔
اسرائیلی پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرین نے ان پر پتھراوکیا نیز آتش بازی اور دیگر سامان پھینکا جس سے 6 اہلکار زخمی ہوگئے انہیں طبی امداد کی ضرورت ہے۔
پولیس نےکہا کہ ہم ان پرتشدد ہنگاموں، فسادات اور اپنی افواج پر حملوں کا سختی سے جواب دیں گے۔
واضح رہے کہ مسجد اقصی یہودیوں کے لئے بھی مقدس ترین ہے۔ یہ طویل عرصے سے اسرائیل اور فلسطین کے مابین متنازعہ معاملہ ہے۔
اس مقام کی نگرانی کرنے والےاسلامی اوقاف نےکہا کہ مسجد اقصی میں 70 ہزارنمازی جمعہ الوداع کی نماز میں شریک تھے۔ اس کے بعد ہزاروں افراد نے حماس کے سبز جھنڈے لہرائے اور حماس کی حمایت میں نعرے لگائے۔
اسرائیل نے افطار کے بعد فلسطینیوں کے لیے ایک خاص مقام پر جمع ہونے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اسرائیل کے اس اقدام سے تصادم کا سلسلہ شروع ہو گیا جو 2 ہفتے جاری رہا۔
امریکہ نے کہا ہے کہ وہ پرتشدد واقعات اور انخلا کی دھمکیوں پر سخت تشویش کا شکار ہے۔ کشیدگی دور کرنے کے لئے امریکہ دونوں فریقوں کے رہنماوں سے رابطے میں ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے بیان میں کہا کہ یہ ضروری ہے کہ تناو کو بڑھاوا دینے والے یا امن سے دور لے جانے والے اقدامات سے گریز کیا جائے۔
ان اقدامات میں بے دخلیاں، آباد کاری کی سرگرمیاں، گھروں کی مسماری اور دہشت گرد کارروائیاں شامل ہیں۔
یورپی یونین نے بھی پرسکون رہنے کی ضرورت پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ انخلا جیسے اقدامات شدید تشویش کا باعث ہیں۔ ایسے اقدامات انسانیت سے متعلق بین الاقوامی قانون کے خلاف اور غیر قانونی ہیں۔ یہ صرف تناو میں اضافہ کرتے ہیں۔
پڑوسی اردن جس نے 1994 میں اسرائیل کے ساتھ صلح کی تھی ،اردن مقبوضہ بیت المقدس میں مسلمانوں کے مقدس مقامات کا نگہبان ہے، اس نے بھی اسرائیل کے ان اقدامات کی مذمت کی ہے۔
خلیجی ریاست بحرین نے بھی اسرائیلی اقدامات کی مذمت کی ہے ، بحرین نے گزشتہ سال ایک معاہدے کے بعد سے اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات استوار کر رکھے ہیں۔
اسرائیلی اور فلسطینی آئندہ دنوں مزید بدامنی کا شکارہو سکتے ہیں۔اتوار کورمضان کریم کی 27ویں شب ہےاور اتوار کو یوم بیت المقدس کا بھی آغاز ہے ۔
یہ ایک قومی تعطیل ہے جس میں اسرائیل مشرقی بیت المقدس کی اپنے ساتھ شمولیت مناتا جاتا ہے اور مذہبی قوم پرست شہر میں پریڈ اور دیگر تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں۔