حالیہ برسوں میں پاکستان میں آزادی اظہارِ رائے کی صورتحال مخدوش ہوئی ہے کیونکہ میڈیا کو صحافتی فرائض کی انجام دہی کے دوران مستقل حملوں، دھونس اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے دعویٰ کیا کہ پاکستان غالباً آزاد میڈیا کے حوالے سے دنیا کے صفِ اول کے ممالک کی فہرست میں موجود ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں تحریر و تقریر سمیت آزادئ اظہارِ رائے پر اکثر قدغنیں لگائی جاتی ہیں۔ کچھ سرخ دائرے ایسے ہیں جنہیں صحافی برادری عبور نہیں کرسکتی اور جو لوگ اس سرکشی کے مرتکب ہوتے ہیں، انہیں خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ نامعلوم افراد کے ذریعے حملے کا نشانہ بننے والے صحافی اسد طور کا معاملہ میڈیا کی آزادی کو نشانہ بنانے سے متعلق پرتشدد واقعے کی تازہ ترین مثال قرار دی جاسکتی ہے۔
آر ایس ایف (سرحدوں سے آزاد میڈیا رائٹس واچ ڈاگ رپورٹرز) کے مطابق ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں 180 ممالک کی فہرست میں پاکستان 145 ویں نمبر پر موجود ہے۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کے مطابق 1992ء سے لے کر اب تک پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے کم از کم 61 صحافیوں کی جان لی گئی۔ بہت سے صحافیوں کا دعویٰ ہے کہ عمران خان کی زیرِ قیادت پی ٹی آئی دورِ حکومت میں صحافی برادری اور میڈیا کو نشانہ بنانے والے حملوں، دھونس اور دھمکیوں کے علاوہ سنسر شپ میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ کچھ مخصوص موضوعات ایسے ہیں جن پر میڈیا اپنی رائے کا اظہار نہیں کرسکتا۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے زور دے کر کہا کہ پاکستان میں میڈیا پر کوئی کریک ڈاؤن نہیں کیا گیا بلکہ پی ٹی آئی اور اس کی حکومت میڈیا سے خود کہیں زیادہ غیر محفوظ ہے۔ ان کے مقتدی وزیرِ اطلاعات نے دعویٰ کیا کہ صحافی سیاسی پناہ حاصل کرنے کیلئے ریاستی اداروں پر تنقید کرتے ہیں۔ فواد چوہدری نے کہا کہ مغربی میڈیا کا یہ رجحان بن گیا ہے کہ وہ ہماری خفیہ ایجنسیوں پر پر تشدد واقعات کا الزام عائد کرتا ہے جبکہ اس طرح کے واقعات کہیں بھی پیش آسکتے ہیں اور پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
موجودہ دور میں میڈیا متعدد چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے جو موجودہ حکومت کے دوران نازک اور حساس مسائل بنتے جار ہے ہیں۔ غیر منطقی گرفتاریوں، نظر بندیوں اور طویل قید و بند کے ساتھ ساتھ بے بنیاد کیسز اور سنسرشپ کو ہتھیاروں کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ میڈیا چینلز کو دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ اگر ہماری ہدایات کے مطابق کام نہ کیا گیا تو اشتہارات واپس لے لیے جائیں گے۔ دباؤ ڈالنے کیلئے دھٹائی سے جاری سنسرشپ کے بہت سے واقعات ہیں جس سے ٹی وی چینلز متاثر ہوتے ہیں۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے بھی اپنی مرضی کے خلاف مواد کو ہٹانے کی کوششیں جاری ہیں۔
یقیناً پاکستان میں میڈیا کو آزاد تصور نہیں کیا جاسکتا۔اسی بنیاد پر وفاقی وزیر کے میڈیا کی آزادی سے متعلق بیان کا مذاق اڑایا جارہا ہے جو ان لوگوں کو متاثر کرتا ہے جو حقیقت عوام تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آزاد میڈیا جمہوری معاشرے کا لازمی حصہ ہوتا ہے اور حکومت کو تمام شہریوں کے آئینی حقوق کی حفاظت کرنا ہوگی۔ (مہمان کالم )