پاکستان میں پہلا مارشل لاء ۱۹۵۶ء کے آئین کو معطل کرتے ہوۓ گورنر جنرل اسکندر مرزا نے لگایا جس میں اسے کمانڈر ان چیف جنرل ایوب کی بھرپور پشت پناہی حاصل تھی۔ ایئر مارشل اصغر خان جو اس وقت ایئر فورس کے کمانڈر انچیف تھے مارشل لاء کے نفاذ کے بعد ایوان صدر میں جنرل ایوب خان، بریگیڈیئر یحییٰ خان اور فوج کے کچھ اور آفیسر کی موجودگی میں اسکندر مرزا کی طرف سے ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کے اعلان کا ذکر کرتے ہوۓ اپنی کتاب “تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا——سیاست اور افواجِ پاکستان” صفحہ ۲۶-۲۵ میں بتاتے ہیں کہ “اس سے اگلے یا تیسرے روز میں نے ایک میٹنگ میں شرکت کی جو اسکندر مرزا کی صدارت میں ہوئی۔ اس میں ایوب خان نئی کابینہ کے ارکان اور پاکستان کے چیف جسٹس شامل تھے۔ اس میٹنگ میں ایوب خان نے جسٹس محمد منیر سے پوچھا کہ نئے آئین کی منظوری کیسے حاصل کی جاۓ۔ جسٹس منیر کا جواب بڑا برجستہ اور حیران کن تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کام تو بہت آسان ہے، پرانے وقتوں میں یونانی ریاستوں میں آئین کی منظوری عوامی تائید سے لی جاتی تھی۔ پاکستان میں بھی ایسا کیا جاسکتا ہے۔ ایوب خان نے عوامی تائید کا مطلب دریافت کیا تو جسٹس منیر نے جواب دیا جب آئین کا مسودہ تیار ہو جاۓ، تو اسے قومی پریس کے ذریعے مشتہر کر دیا جاۓ۔ اس کے فورا بعد ایوب خان نشتر پارک کراچی، پلٹن میدان ڈھاکہ، موچی گیٹ لاہور اور چوک یادگار پشاور میں جلسہ ہاۓ عام سے خطاب کریں۔ جس میں وہ پچھلے دنوں اخبارات میں چھپنے والے آئین کا ذکر کر کے اس کی منظوری حاصل کریں۔ عوام کا جواب یقینا مثبت ہوگا۔یہ ہے مطلب عوامی تائید کا۔ میٹنگ میں موجود تمام افراد نے بے ساختہ قہقہہ لگایا، ایوب خان کا قہقہہ سب سے زور دار تھا۔ ایوب خان نے اگرچہ اس مشورے پر عمل نہ کیا لیکن پاکستان کے چیف جسٹس کی طرف سے یہ ایک انتہائی سنجیدہ مشورہ تھا۔ اس لیے کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ اسی وقت سے ہمارے لیے مارشل لاء سے چھٹکارا حاصل کرنا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔” خوش قسمتی سے پاکستان میں آئین کی منظوری کا یہ قدیم یونانی طریقہ اختیار نہیں کیا گیا لیکن ہم آج اس طریقے کو کسی کو محب وطن یا غدار قرار دئیے جانے کے لیے ضرور استعمال کرتے ہیں جس کی واضح مثال حامد میر کی وہ ویڈیو ہے جس میں وہ اسد طور نامی صحافی پر اسکے گھر میں داخل ہو کر اسے مارنے پیٹنے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے نظر آتے ہیں اور اسکا ذمہ دار ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو قرار دے رہے ہیں۔ ایک نامور صحافی کا ایک انتہائی اہم ملکی ادارے پر الزام انتہائی سنگین صورتحال ہے جسکی سنجیدہ طریقے سے تحقیق ہونی چاہیے کہ آخر وہ کون افراد تھے جو اسد طور کے گھر میں داخل ہوۓ ؟ اور اسکے ساتھ مار پیٹ کی جبکہ اس واقعہ کی سی سی ٹی ویڈیو بھی یو ٹیوب وغیرہ پر شئیر کی گئی تھی۔ ان افراد کی شناحت کی جاتی اور انھیں پکڑ کر واقعہ کی اصل حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کی جانی چاہیے تھی۔ ایسا کیا گیا یا نہیں اس سے قطع نظر ایک اور کام شروع ہوگیا اور وہ یہ کہ عوامی سطح پر ہر فرد نے حامد میر کے خلاف ردعمل دینا شروع کر دیا ہے جس میں عوام کی اکثریت فوج کے حق میں ہے اور حامد میر پر سخت تنقید کی جا رہی ہے اور انھیں نجانے کون کون سے القابات سے لیکر غدار تک قرار دیا جا رہا ہے۔ اب کسی کو غدار قرار دینا بھی چھوٹی بات نہیں ہے۔ اصل رونا اس بات کا ہے کہ جس بات کا فیصلہ کسی سنجیدہ فورم پر ہونا چاہیے تھے اسے عوامی ٹرائل سے حل کرنے کی روش اختیار کی گئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام کے جذبات مجروح ہوۓ ہیں لیکن ہمیں یہ حقیقت یاد رکھنی چاہیے کہ جس کی جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے اسکا ردعمل جذباتی ہوسکتا ہے اور جذبات میں اکثر اوقات حقائق دھندلا جاتے ہیں۔ جس ادارے پر الزام لگا ہے ادھر سے مکمل خاموشی طاری ہے جو معاملے کو مزید الجھا رہی ہے شاید وہ بھی حامد میر کے عوامی ٹرائل سے خوش ہیں کہ خود عوام ہی اسے مجرم قرار دے رہی ہے تو ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ کسی عدالتی سطح پر اس الزام کا سامنا کریں یا اگر اسد طور پر حملہ ایک ڈرامہ تھا تو اس ڈرامے کی حقیقت ہی عوام پر ثبوتوں کے ساتھ واضح کر دیں لیکن اس معاملے میں بھی سوشل میڈیا پر شئیر کی جانے والی ویڈیوز اور تصاویر کی بنیاد پر ہی عوامی عدالت میں فیصلے صادر کیے جا رہے ہیں۔ اس تمام صورتحال میں کیا ہم یہ سمجھیں کہ ہم انتہائی اہم قومی معاملات کو کسی حتمی نتیجہ تک پہنچانے کے لیے قدیم یونانی طریقہ استعمال کر رہے ہیں ؟ کہ عوامی حمایت یا مخالفت سے کسی کو محبِ وطن یا کسی کو غدار قرار دے ڈالیں۔ کیا ہم واقعی سمجھ لیں کہ مسلہ حل ہوگیا اور اب ہمیں بے فکر ہو جانا چاہیے یا پھر مسلہ کسی ناسور کی طرح اپنی جگہ پر موجود ہے اور آہستہ آہستہ ہمارے سارے قومی وجود میں پھیل جاۓ گا جس کا خمیازہ ایک دن ہم سب کو بھگتنا پڑ جاۓ۔