گھوٹکی: ڈہرکی کے قریب 2 ٹرینوں میں خوفناک تصادم کے نتیجے میں 48 مسافر جاں بحق جبکہ متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔ ملت ایکسپریس کی بوگیاں الٹ کر دوسرے ٹریک پر جاگریں۔ مخالف سمت سے آنے والی سرسید ایکسپریس بوگیوں سے ٹکرا گئی۔ امدادی کارروائیاں جاری ہیں، جس میں پاک فوج اور رینجرز کے جوان شریک ہیں۔
ترجمان ریلوے کے مطابق ٹرین حادثہ رات 3 بج کر 45 منٹ کے قریب ہوا، ملت ایکسپریس حادثے کے فوری بعد سرسید ایکسپریس ٹریک پر گری بوگیوں سے جاٹکرائی، ملت ایکسپریس کے ڈرائیور کو کمیونیکیشن سسٹم دستیاب ہے، سرسید ایکسپریس نے ولہار سٹیشن کو 3 بج کر 25 منٹ پر کراس کیا، ملت ایکسپریس نے ڈہرکی کو 3 بج کر 30 منٹ پر چھوڑا، ماچھی گوٹھ سے ڈہرکی تک ٹریک بوسیدہ اور مرمت کرنے والا ہے۔
ٹرین حادثے کے ایک زخمی مسافر نے بڑا انکشاف کیا ہے کہ ملت ایکسپریس کا کلمپ پہلے سے ہی ٹوٹا ہوا تھا، جس کا ریلوے حکام کو علم تھا، اسی وجہ سے ٹرین لیٹ ہوئی اور کراچی کینٹ سٹیشن پر کھڑی رہی۔ مرمت کے بعد ٹرین روانہ کی گئی، تاہم ڈہرکی کے قریب اتنا بڑا حادثہ پیش آگیا۔
وزیراعظم نے گھوٹکی حادثے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے جامع انکوائری کا حکم دے دیا۔ عمران خان نے کہا کہ وزیر ریلوے کو جائے حادثہ پر پہنچنے کی ہدایت کی ہے، ریلوے سیفٹی کی خرابیوں کی جامع تحقیقات کی جائیں۔ وزیراعظم کی ہدایت پر وزیر ریلوے اعظم سواتی حادثےکی جگہ چلے گئے۔ اعظم سواتی کا کہنا تھا کہ 24 گھنٹے میں ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ دی جائے گی، حادثےکی انکوائری خود کروں گا۔
آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ٹرین حادثے کے بعد ریلیف اور ریسکیو آپریشن شروع کر دیا گیا، آرمی اور رینجرز کے دستے ریسکیو آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں، پنو عاقل سے پاک فوج کے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف جائے حادثہ پر پہنچ چکا ہے، ریسکیو کے لئے آرمی انجینئرز کے وسائل بھی بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔
ادھر سکھر حادثے کے بعد ٹرینوں کو مختلف سٹیشنوں پر روک لیا گیا۔ پشاور جانے والی خیبر میل کو رانی پور سٹیشن پر روک لیا گیا۔ لاہور جانے والی گرین لائن گمبٹ ریلوے سٹیشن پر موجود ہے۔ زکریا ایکسپریس کو گھوٹکی، سر سید ایکسپریس کو پنوعاقل میں روک لیا گیا۔ فرید اور شاہ حسین ایکسپریس روہڑی ریلوے سٹیشن پر موجود ہے۔
رحمان ایکسپریس کو رحیم یار خان ریلوے سٹیشن پر روک لیا گیا۔ لاہور جانے والی شاہ حسین ایکسپریس کو ڈیرہ نواب صاحب پر روک لیا گیا۔ کراچی جانے والی عوامی ایکسپریس لیاقت پور ریلوے سٹیشن پر موجود ہے۔
وزیراعظم کی ہدایت پر وزیر ریلوے حادثے کے مقام پر پہنچے انہوں نے کہا کہ 24 گھنٹے کے اندرابتدائی تحقیقاتی رپورٹ دی جائے گی، حادثے میں کوئی انسانی غفلت ثابت ہوئی تو سخت ایکشن لیا جائے گا۔
اعظم سواتی تحصیل ہسپتال اوباڑو پہنچے جہاں انہوں نے جاں بحق ہونے والے مسافروں کے لئے دعا کی۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے پاک آرمی، پولیس، لوکل ایڈمنسٹریشن اور عام لوگوں سمیت تمام اداروں کا شکریہ ادا کرتا ہوں، یہ بہت بڑا حادثہ ہے، خود صورتحال کو مانیٹر کروں گا۔
اعظم سواتی کا کہنا تھا کہ جتنی بھی قیمتی جانیں ضائع ہوئی، ان کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں، دکھ ہوتا ہے ریلوے کے اندر اور ریلوے کے باہر بہت بڑا مافیا ہے، آج سے نہیں 30 سال سے نچوڑ کر کھا لیا، ابھی اوباڑو آیا، اب رحیم یار خان جاؤں گا، زخمیوں کی دیکھ بھال کریں گے۔
ادھر پنجاب حکومت نے ٹرین حادثے میں جاں بحق افراد کے لواحقین کو 15 لاکھ روپے معاونت دینے کا اعلان کیا ہے۔ حکومتی فیصلے سے میڈیا کو آگاہ کرتے ہوئے معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے بتایا کہ زخمیوں کے لیے 50 ہزار سے 3 لاکھ تک امداد کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔
شہباز شریف نے ڈہرکی کے قریب سرسید ایکسپریس اور ملت ایکسپریس کے تصادم پر رنج و غم اور افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ ٹرین کے تصادم میں قیمتی جانوں کے ضیاع اور درجنوں مسافر زخمی ہونے پر دلی دکھ ہے، متاثرہ خاندانوں سے ہمدردی اور تعزیت کرتے ہیں۔
قائد حزب اختلاف قومی اسمبلی نے جاری بیان میں کہاکہ حادثے کی جگہ سمیت سکھر ڈویژن میں 13 مقامات پر ٹریک کی حالت ٹھیک نہ ہونے کی تحریری رپورٹ کے باوجود مجرمانہ غفلت کیوں برتی گئی، افسوس موجودہ دور ٹرین کے حادثات کا دور ثابت ہو رہا ہے، واقعے کی حقیقی، غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائی جائے اور ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی مرحومین کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور لواحقین کو صبر جمیل دے۔
سابق صدر زرداری نے بھی ریل گاڑیوں کے ٹکرانے پر انسانی جانوں کے نقصان پر اظہار افسوس کیا۔ آصف زردای نے جان بحق افراد کے لواحقین سے ہمدردی اور تعزیت بھی کی۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت جانبحق افراد کے لواحقین کو معاوضہ ادا کرے، حکومت سندھ زخمیوں کی جانیں بچانے کیلیے ٹھوس اقدامات اٹھائے۔
ادھر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کمشنر سکھر کو ٹیلی فون کر کے تمام ضلعی انتظامیہ کو متحرک کرنے کی ہدایت کر دی۔ انہوں نے کہا کہ مشینری کا انتظام کر کے مسافروں کو نکالنے کا بندوبست کیا جائے، سسٹم بنایا جائے تا کہ مسافروں کے رشتہ داروں کو صحیح معلومات مل سکے۔ وزیراعلی سندھ نے مسافروں کی رہائشی اور کھانے پینے کا انتظام کرنے کی بھی ہدایت کر دی۔
پاکستان ریلوے کی تاریخ میں اب تک کئی بڑئے حادثات ہوئے جن میں سیکڑوں افراد جان سے گئے اور ریلوے کو کروڑوں کا نقصان بھی ہو چکا۔
پاکستان ریلوے کی تاریخ کئی بڑے حادثات سے بھری پڑی ہے، بھیانک ترین ٹرین حادثہ 4 جنوری 1990 کو ہوا، جب پنوں عاقل کے قریب سانگی میں ٹرین حادثے میں 307 افراد جان سے گئے۔
1953 جھمپیر کے قریب ٹرین حادثے میں 200 افراد جاں بحق ہوئے، اسی طرح 1954 میں جنگ شاہی کے قریب ٹرین حادثے میں 60 قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں جبکہ ریلوے کو کروڑوں کا نقصان ہوا۔
22 اکتوبر 1969 کو لیاقت پور کے قریب ٹرین حادثے کا شکار ہوئی، 80 افراد جان سے گئے۔ 13 جولائی 2005 کو گھوٹکی کے قریب تین ٹرینیں آپس میں ٹکرا گئیں، 120 افراد جاں بحق ہوئے۔
جولائی 2013 میں خان پور کے قریب ٹرین رکشے سے ٹکرا گئی، 14 افراد جان سے گئے۔ 2 جولائی 2015 کو گوجرانوالہ میں خوفناک ٹرین حادثہ پیش آیا، 19 افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔ 17 نومبر 2015 بلوچستان میں ٹرین حادثے کے نتیجے میں 20 افراد لقمہ اجل بنے۔
3 نومبر 2016 کو کراچی کے علاقے لانڈھی میں دو ٹرینیں آپس میں ٹکرائیں، نتیجہ بھی خوفناک نکلا، 21 افراد جاں بحق ہوئے۔ 31 اکتوبر 2019 کو ضلع رحیم یار خان میں مسافر ٹرین میں آگ لگنے سے 74 افراد جان سے گئے۔
11 جولائی 2019 کو رحیم یار خان کے قریب اکبر ایکسپریس مال گاڑی سے ٹکرا گئی، جس میں 20 مسافر جاں بحق اور 60 زخمی ہوئے۔ سال 2019 پاکستان ریلوے کی تاریخ کا بدترین سال ثابت ہوا، 100 سے زائد حادثات ہوئے۔
ریلوے ریکارڈ کے مطابق سب سے زیادہ جون میں 20 حادثات ہوئے، انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ محکمہ ریلوے کو بھی کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔