دبئی کے لیے ایک بات مشہور ہے کہ وہ افراد جن کے پاس پیسے ہیں ان کے لیے وہاں خرچ کرنے کے مواقع بھی خوب ہیں۔ تاہم کورونا کی وبا کے دوران شہر میں تفریخ اور سفر کے لیے ایک نیا ذریعہ سامنے آیا اور وہ ہے کشتیاں۔
دبئی میں رہنے والی سعودی عرب کی شہری 36 سالہ نادا نعیم کا کہنا ہے کہ ’وبا کے دوران دوستوں اور گھروالوں کے ساتھ تفریح کرنے کا یہ ایک بہترین طریقہ ہے
وائرس کی وبا کے آغاز سے وہ دبئی سے باہر نہیں نکلیں۔‘
’یہی وجہ سے کہ کشتیوں میں سفر کرنے سے ایسا لگتا ہے ‘جیسے آپ نے سفر کر لیا ہو۔‘
دنیا کے دوسرے ممالک کے برعکس دبئی نے کورونا وائرس کے آغاز کے کچھ ماہ بعد ہی سیاحوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیے تھے۔
یہ خلیجی شہر ان چند مقامات میں سے ایک تھا جس نے گذشتہ سال جولائی میں سیاحوں کو خوش آمدید کہنا شروع کر دیا تھا۔
ریستورانوں اور ساحل سمندر کے کھلنے سے اس شہر میں زندگی معمول کی طرف آنا شروع ہوئی۔
متحدہ عرب امارات، جو کہ دبئی سمیت سات ریاستوں پر مشتمل ہے، میں بھرپور ویکسینیشن مہم کا آغاز ہوا تھا اور یہاں ویکسینیشین کروانے والے افراد کی تعداد کافی زیادہ رہی ہے۔
دبئی میں اب بھی ماسک پہننے اور سماجی فاصلے کا خیال رکھنے کے لیے سخت قوانین نافذ ہیں۔
جہاں تک دبئی میں چلنے والی کشتیوں کا سوال ہے، وہ افراد جن کی جیب اجازت دیتی ہے ان کے لیے کشتیوں میں سفر کرنا سب سے محفوظ ہے۔
رائل سٹار تاٹ نامی چارٹر کمپنی کے مینیجر محمد السید کا کہنا ہے کہ ‘قوانین پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ ہم لوگوں کو باقاعدہ کسٹمر سروس فراہم کررہے ہیں، اور یاٹ کو سینیٹائز کررہے ہیں۔’
فی الحال ان کشتیوں کو کل نشتسوں کی 70 فیصد تعداد تک سیاحوں کو بٹھانے کی اجازت دی گئی ہے۔
رائل سٹار کمپنی کے پاس موجود کشتیوں میں سے ایک 141 فٹ کی یاٹ ہے جس میں کل 80 مسافر سوار ہو سکتے ہیں۔
تین گھنٹے کی سواری کے لیے 4900 ڈالر ادا کرنا ہوتے ہیں۔