تحریکِ پاکستان تصویروں کے آئینے میں ۔۔۔ تحریر شوکت علی
پاکستان کے قیام کی جدوجہد برصغیر کی تاریخ کا ایک ایسا واقعہ ہے جو آج بھی اس ملک کے مخالفین کی طرف سے تنقید کی زد میں رہتا ہے۔ ان حالات میں یہ بات اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کر جاتی ہے کہ ہم نہ صرف خود بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کو بھی ان محرکات و وجوھات سے وقتا فوقتا آگاہ کرتے رہا کریں جو پاکستان کے قیام کے مطالبے کی وجہ بنیں۔ اس سلسلے میں بیرونی ممالک میں آباد پاکستانیوں کے لیے ان ممالک کے پاکستانی سفارت خانے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ بعض اوقات جن تاریخی دستاویزات کا حصول یا تحریکِ پاکستان سے متعلق کسی بھی اہم چیز تک رسائی سفارت خانے کے لیے ممکن ہوتی ہو وہ ایک عام پاکستانی کے لیے شاید ایک محنت طلب اور مشکل کام ہو حالانکہ بعض اوقات یہ کام سفارت خانوں کے لیے بھی آسان نہیں ہوتا ہے۔ اپنی تاریخ سے آگاہ رکھنے کی ایسی ہی ایک کوشش ڈنمارک میں پاکستانی سفارت خانہ کی جانب سے دیکھنے میں آئی جہاں سفیرِ محترم غلام فاروق نے تحریک پاکستان کے حوالے سے ایک تصویری نمائش کا افتتاح کیا۔ یہ تصویری نمائش ۳۱ جولائی سے ۲۹ اگست تک ہر ہفتے اور اتوار کو ۱۲ بجے سے لیکر ۴ بجے تک ماسواۓ اکیس اور بائیس اگست کے ہفتہ اور اتوار کے تمام لوگوں کے لیے کھلی رہے گی۔ سفیرِ محترم عزت مآب غلام فاروق صاحب نے اپنے افتتاحی پیغام میں سب پاکستانیوں سے بالخصوص اپیل کی کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ اس تصویری نمائش میں شرکت کریں جس سے نہ صرف خود انھیں پاکستان کے قیام کے جدوجہد کے مختلف ادوار و حالات و واقعات سے آگاہی حاصل ہو گی بلکہ وہ اپنے بچوں کو بھی اس خطے کی تاریخ کے اس حیرت انگیز واقعہ سے متعلق روشناس کروا سکیں گے۔اس نمائش میں رکھی گئی ہر تصویر اپنے اندر ایک کہانی ایک پیغام لیے ہوۓ ہے۔ ایک تصویر میں قائد اعظم نوجوانوں میں گھرے، بہترین لباس پہنے ہوۓ زمین پر بیٹھے نظر آتے ہیں۔ نوجوان انتہائی انہماک سے قائد اعظم کی باتوں کو سن رہے ہیں۔ یہ تصویر ۱۹۴۶ء کی ہے جب پاکستان کے مطالبے کی تحریک اپنے آخری اور اختتامی مرحلے میں داخل ہوچکی تھی۔ مسلمانوں میں اپنے لیے ایک علیحدہ وطن کے قیام کے تصور سے ہی جہاں ایک ناقابلِ شکست جوش و جذبے کا مظاہرہ کیا جا رہا تھا وہیں وہ پاکستان کے متعلق اپنے ذہن میں کئی باتیں سوچتے ہونگے اور اس تصویر میں ایسے ہی نظر آتا ہے جیسے کوئی شفیق باپ اپنے بچوں کو انکے نئے گھر کے خواب کی حقیقتیں سمجھا رہا ہو، انھیں بتا رہا ہو کہ یہ گھر انکا مقدر ہے بس انھیں دشمنوں کے جھوٹے پروپیگنڈے کا شکار نہیں ہونا اور یہ گھر تمہیں نوجوانوں کی ہمت اور حوصلوں سے وجود میں آۓ گا کہ اپنی زندگی کی آخری جنگ لڑتے ہوۓ ایک بوڑھے باپ، باباۓ قوم کا ہراول دستہ اسکے یہ نوجوان طالبعلم بچے ہی تو تھے جنھوں نے باباۓ قوم کے دست و بازو بن کر پاکستان کے خواب کو ایک حقیقت کا روپ دے دیا۔ اس تصویری نمائش میں کچھ تصویریں آل انڈیا مسلم لیگ کی خواتین راہنماؤں کی ہیں جو اس راز سے پردہ اٹھاتی ہیں کہ دنیا کی کوئی بھی قوم اپنے مقاصد کو حاصل نہیں کر پاتی جب تک اسکی خواتین بھی رزم گاہِ حیات میں اس قوم کے مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی نہیں ہوتیں الغرض اس تصویری نمائش میں ہر تصویر اپنے اندر خود ایک تاریخ ہے اس تقریب میں شرکت کرنے سے مجھے ایسا لگا جیسے یہ تصویریں مجھے اپنے ساتھ تاریخ کے سفر پر لے گئی ہیں ایک ایسے سفر پر جو ہمیں ہمارے قومی وجود اور اسکی بنیاد پر ایک علیحدہ آزاد و خود مختار اسلامی ریاست کے قیام سے آگاہی عطا کرتا ہے، جو ہمیں ہماری تاریخ سے آگاہ کرتا ہے اور یہ حقیقت ہمیں کبھی بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ جس قوم کی کوئی تاریخ نہیں ہوتی اسکا کوئی حال نہیں ہوتا، کوئی مستقبل نہیں ہوتا ہے۔ اگر ہمیں اپنے حال اور مستقبل کو سنوارنا ہے تو چلیں کچھ دیر کے لیے تاریخ کے سفر پر نکلتے ہیں، اپنی شناخت سے آگاہی کے راستوں پر سفر کرتے ہیں اور ان راستوں پر رونما ہونے والے واقعات کو تصویری شکل میں دیکھتے ہیں اسکے لیے آپ کو اس نمائش میں شرکت کے لیے تھوڑا سا وقت نکالنا ہوگا، اپنے سفارت خانے کی جانب سے کی جانے والی اس کوشش کو بھی سراہنا ہو گا تاکہ وہ آئندہ بھی اس طرح کے اقدامات کرتے رہیں جو ہمیں ہماری تاریخ سے آگاہی کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔
سفیرِ پاکستان شرکاء کو تصویری نمائش کے متعلق بریفنگ دیتے ہوۓ۔
تصویری نمائش کا افتتاح سفیرِ پاکستان نے ایک معمر پاکستانی سے کروایا جنھوں نے پاکستان بنتے دیکھا۔
ایک بزرگ اپنے ساتھ لاۓ گے نوجوان کو تصویروں کے پس منظر کے متعلق بتاتے ہوۓ۔
“ایک خاتون انتہائی انہماک سے تصویریں دیکھتے ہوئے۔”
انسانی حقوق کے لیے ہر لمحہ سرگرمِ عمل باشی قریشی سفیرِ محترم سے تبادلہ خیالات کرتے ہوۓ۔