Ch-Anwar-Chohan

ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں.تحریر چوہدری انور چوہان

آج ایک اور یومِ آزادی جشن کی نظر ہوجائے گا ایک بار پھر ملک پر جان نثار کرنے والے نخمے گونجیں گے گلی محلوں کو جھنڈے اور جھنڈیاں سے سجایا جائے گا رات کو برقی قمقموں کی بہار ہوگی ڈائریکٹ کنڈ ے لگا کر وطن سے محبت کا اظہار کیا جائے گا نوجوان ایک بار پھر موٹر سائکل ریلیاں نکالیں گے ون ویلنگ پورے جوش و خروش سے ہوگی کئی نوجوان نہ چاہتے ہوئے بھی زخمی ہونگے جو بُری طرح زخمی ہونگے وہ ڈاکٹروں کی غفلت سے خُدا نخواستہ جانبر نہ ہو سکیں گے ہر ضلع ،تحصیل کی سطح پر اے سی ، ڈی سی صاحبان پولیس کے افسران کے ہمراہ پرچم کُشائی کی رسم ادا کریں گے کیمروں کے جھُرمٹ میں پودے بھی لگائے جائیں جنکے لئے نئے بیلچے بطورِ خاص اسٹورز سے نکالے جائیں گے فوارے سے رسمی پانی بھی دیا جائے گا جسکی باقاعدہ عکاسی بھی کی جائے گی تالیاں بجانے والے بھی آ موجود ہونگے ننھے مُنے بچے جشنِ آزادی کی نسبت سے لباس زیب ِ تن کرکے چلچلاتی گرمی یا یخ بستہ سردی میں پہروں کھڑے کھڑے تھک جائیں گے کسی نازک پُھول سی بچی کی ڈیوٹی لگائی جائے گی کہ وہ مہمانان خاص کو چہروں پر مسکراہٹ سجا کر گلدستے پیش کریں عام طور پر یہ بچے بلدیاتی ملازموں کے ہوتے ہیں اگر کثیر تعداد میں درکار ہوں تو کسی پرائویٹ سکول کے ہیڈ سے رابطہ کر لیا جاتا ہے پودے تو اتنی عُجلت میں لگائے جاتے ہیں کہ انکی جڑوں سے لپٹے شاپنگ بیگ تک نہیں اُتارے جاتے وہ دو چار دن میں مرجھا جاتے ہیں ویسے بھی کون دیکھنے آتا ہے کہ کس کس نے کہاں پودے لگائے تھے ضرورت محسوس ہو تو مہمانِٰ خاص کی اُسکے عہدے کی نسبت سے نُکرئی تختی بھی آویزان کر دی جاتی ہے سرکاری سطح پر ایسی تقاریب برپا کرنے پر قوم کی جیب سے کتنے اخراجات اُٹھتے ہیں عام آدمی سوچ بھی نہیں سکتا نہ ہی سرکاری سطح پر ہونے والے اخراجات عوام کے نوٹس میں لائے جاتے ہیں زیادہ تر کاروائیاں ڈالی جاتی ہیں عوامی سطح پر ایسی تقریبات کو رسم و رواج میں باقائدہ شامل کر لیا جاتا ہے قومی پرچم جو کسی دور میں صرف قصر ِ صدارت ، گورنر ہاؤس یا وزیر اعظم ہاؤس پر لہرایا جاتا تھا اب عوام الناس کے گھروں اور محلوں میں لہرایا جاتا ہے جسکو لپیٹ کے رکھنے کی کوئی روایت موجود نہیں جب تلک لیر و لیر نہ ہوجائے اُتارا نہیں جاتا جھنڈیاں بکھر کر گلیوں میں لوگوں کے قدموں میں آ رہی ہوتی ہیں سبز ہلالی پرچم کی دھوم اور گونج ہر سو سُنائی اور دکھائی دیتی ہے سفید رنگ جھنڈے میں موجود ضرور ہوتا ہے مگر مقصد سے محروم ہوتا ہے چند روز بعد یوم دفاع کی تیاریاں بڑے جوش و خروش سے شروع ہوجاتی ہیں پھر وہی سب چیزیں اور مشاغل جو اس موقعہ کی مناسبت سے گذشتہ سال دوہرانے گئے تھے پہلے سے زیادہ شدت اور گرمجوشی دکھائی دیتے ہیں شاید ہم ایک جذباتی قوم ہیں جنکو منزل کا کُھرا تو مل گیا ہے مگر عازم ِ سفر کب ہونگے علم نہیں شاید جُوش و خروش ہی زندگی کی علامت ہے اسی لئے کہتے ہیں ہم زندہ قوم ہیں ہم پائندہ قوم ہیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں