جنگ ستمبر کے حالات و واقعات پڑھتے ہوۓ میری توجہ تاریخ کے ایک عجیب واقعہ پر پڑی جس کے تعلق دوسری جنگ عظیم کے دو مسلمان افسران سے ہے اور اس واقعہ کے اثرات جنگِ ستمبر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ دونوں افسران دوسری جنگ عظیم میں برما اور ملایا کے محاذ وں پر لڑے تھے ان میں سے ایک کو بزدلی کا مظاہرہ کرنے پر میدان جنگ سے واپس بھیج دیا گیا جبکہ دوسرا میدان جنگ میں جاپانیوں کا قیدی بنا اور دوسرے قیدیوں کے ساتھ جاپانی اسے نیو گنی کے جزائر پر لے گے جہاں وہ ساری جنگ کے دوران جاپانیوں کے لیے سڑکیں بنانے کا کام کرتے رہے۔ اس افسر کا کہنا تھا کہ جب انھیں قیدی بنایا گیا تو وہ تہیہ کیے ہوۓ تھے کہ جاپانیوں کی قید سے فرار ہو جائیں گے لیکن ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا جب جاپانی انھیں نیوگنی کے جزائر پر لے گے جہاں چاروں طرف پانی ہی پانی تھا اور فرار کی تمام راہیں بند ہوچکی تھیں۔ جب ستمبر ۱۹۴۵ء میں ریڈیو پر اتحادی فوجوں کے ہتھیار ڈالنے کا اعلان ہوا اور آسٹریلوی فوجیں ان جزائر پر فاتح فوجوں کی حثیت سے اترئی تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئیں کہ پھٹے کپڑوں، ننگے پاؤں، بھوک اور مشقت سے ناتواں جسموں کے قیدی سپاہیوں نے اس مسلمان سیکنڈ لیفٹیننٹ کی قیادت میں جزیرے پر موجود جاپانی فوجیوں سے سخت گفت و شنید کے بعد انھیں اس بات پر قائل کر لیا ہوا تھا چونکہ جاپانی فوج ہتھیار ڈال چکی ہے اس لیے اب وہ بھی ہتھیار ڈال دیں اور اپنے آپ کو قیدی ہندوستانی سپاہیوں کے حوالے کر دیں۔ جزیرے پر اترنے والا آسٹریلوی فوجوں کا جنرل اس مسلمان سیکنڈ لیفٹیننٹ کی فہم و فراست اور بہادری سے بے حد متاثر ہوا اور اسنے حکومت برطانیہ سے گزارش کی کہ اس نوجوان افسر کو اسکی بہادری پر اعلی فوجی اعزاز سے نوازا جاۓ چناچہ اس مسلمان افسر کو ایم بی ای (ممبر آف دی آرڈر آف برٹش ایمپائر) سے نوازا گیا۔
اسکے بعد پاکستان وجود میں آگیا اور یہ دونوں افسران پاکستانی فوج کا حصہ بنے۔ ان میں سے ایک آزادی کے بعد قسمت کی دیوی کی مہربانی سے افواج پاکستان کا پہلا مسلمان سربراہ بنا اور یہ وہ مسلمان افسر تھا جسے برما کے محاذ پر بزدلی دکھانے کی وجہ سے میدانِ جنگ سے واپس بھیج دیا گیا تھا اور تاریخ اسے فیلڈ مارشل ایوب خان کے نام سے جانتی ہے۔ پاکستان کی فوجی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے جنگِ ستمبر میں پاکستانی فوج کے اپنے اہداف حاصل نہ کر سکنے کی ایک وجہ جنرل ایوب خان کے لاشعور میں چھپا جنگ کا خوف بھی بتاتے ہیں۔ جس طرح جنرل ایوب خان نے دوسری جنگِ عظیم میں برما کے محاذ پر یہ عذر پیش کر کے لڑنے سے انکار کر دیا تھا کہ اس کے فوجی تھکے ہوۓ ہیں اور مزید لڑ نہیں سکتے چناچہ اسکے کمانڈنگ آفیسر جنرل ریس نے اسے عہدے سے برطرف کر کے واپس انڈیا بھیج دیا تھا اسی طرح جنگ ستمبر میں جنرل ایوب کی رضامندی سے گوریلا دستے کشمیر میں داخل کر تو دیے گے لیکن ایک بھرپور جنگ کے خوف نے جنرل ایوب کو چھمب جوڑیاں کے مقام پر آگے بڑھتے ہوۓ دستوں کو انکا اصل ہدف اکھنور حاصل کرنے سے روک دیا کیونکہ اس صورت میں جنرل ایوب کو ڈر تھا کہ بھارت کشمیر کو ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر بین الاقوامی سرحدوں کو عبور کرتے ہوۓ پاکستان پر حملہ کر دے گا۔ جنرل اختر حسین ملک جو آپریشن جبرالٹر کی قیادت کر رہے تھے اور آگے بڑھ کر اکھنور پر قبضہ کرنا چاہتے تھے انھیں قیادت سے ہٹا دیا گیا اور انکی جگہ جنرل یحییٰ کو قیادت سونپ دی گئی جنھوں نے آکر سارا پلان بدل کے رکھ دیا۔ جنگ کے بعد بریگیڈئیر اے اے کے چودھری نے ایک موقعہ پر جنرل یحییٰ سے پوچھا کہ انھوں نے اکھنور پر قبضہ کیوں نہیں کیا ؟ تو جنرل یحییٰ نے جواب دیا کہ اسے اس سے منع کر دیا گیا تھا۔ یہ بات یقینی ہے کہ پلان کی اس تبدیلی کی جرات چیف آف آرمی سٹاف جنرل موسیٰ اپنی مرضی سے کر ہی نہیں سکتے تھے اس بات کا حکم انھیں جنرل ایوب نے ہی دیا ہوگا۔ ایک بات کا ذکر جنرل ایوب کے سیکرٹری گوہر ایوب نے اپنے ایک انٹرویو میں بھی کر رکھا ہے کہ جنرل ایوب جنگِ ستمبر کو یاد کر کے ایک جملہ کہا کرتے تھے
“ One fatal mistake and you lost the war”
“ایک بھیانک غلطی سے جنگ ہاری جا سکتی ہے”
الطاف گوہر کہتے ہیں کہ میں پوچھتا کہ وہ بھیانک غلطی کونسی تھی تو جنرل ایوب جواب دیتے “اکھنور”۔
افواج پاکستان کے فاتح دستے جو انتہائی تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے اور قریب تھا کہ وہ اکھنور پر قبضہ کر کے کشمیر میں موجود بھارتی فوج کی سپلائی لائن کاٹ دیتے انھیں آگے بڑھنے سے روک دیا گیا۔ کمانڈ کی تبدیلی نے محاذ سے بھاگتی بھارتی فوج کو اپنے پاؤں جمانے کا وقت دے دیا۔ اب کشمیر پر بھارتی گرفت مضبوط ہوچکی تھی اور اسنے فیصلہ کیا کہ یہ سنہری موقع ہے کہ وہ اپنی بے پناہ فوجی قوت کو جو اسنے چین کے ساتھ مقابلہ کرنے کے بہانے اکٹھی کی تھی اسے پاکستان کو تخت و تاراج کرنے اور اسکی فوج کی کمر توڑنے کے لیے استعمال کرے تاکہ مستقبل میں کبھی پاکستان اسکی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہ کرے۔
یہاں سے جنگ کا وہ دور شروع ہوتا ہے جس نے کشمیر کی وادیوں سے نکل کر پاکستان کی بین الاقوامی سرحدوں کا رُخ کیا۔ اس کے لیے بھارت نے پہلے لاہور پر اپنی پوری قوت کے ساتھ حملہ کیا اور اسکے بعد انھوں نے سیالکوٹ پر حملہ کر دیا۔ ان کا مقصد تھا کہ لاہور پر قبضہ کرتے ہوۓ وہ سیالکوٹ کی طرف سے حملہ کرنے والی بھارتی فوج کے ساتھ جی ٹی روڈ پر آ ملیں گے اور یوں اس علاقے میں لڑنے والے پاکستانی دستے بھارتی فوج کے گھیرے میں آ کر ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ لاہور میں لڑنے والے پاکستانی دستوں کی شجاعت و بہادری نے بھارتی حملے کو وہیں روک دیا جبکہ سیالکوٹ کے محاذ پر بھارتی فوج کے لاہور پر کیے جانے والے حملے سے بھی زیادہ شدید حملے کو پاکستان کے چھٹے آرمرڈ ڈویژن نے روکا جسکی قیادت وہی سیکنڈ لیفٹیننٹ کر رہا تھا جسے دوسری جنگ عظیم میں بہادری کے اعزاز سے نوازا گیا تھا اور جو اب میجر جنرل ابرار حسین بن چکا تھا جس نے بھارت کے لوہے اور آگ کے طوفان کو چونڈہ کی سرزمین پر خاک میں ملا دیا۔ میجر جنرل ابرار حسین جس آرمرڈ ڈویژن کی قیادت کر رہے تھے وہ ایک نولود آرمرڈ ڈویژن تھا جسکی عمر بمشکل ایک سال تھی اور جو ابھی ایک ڈویژن کے لیے طے شدہ تمام جنگی وسائل سے آراستہ بھی نہیں تھا جبکہ اسکا مقابلہ چونڈہ کے محاذ پر بھارت کے فرسٹ آرمرڈ ڈویژن سے تھا جو ایک انتہائی تجربہ کار اور ہر قسم کے جنگی ساز و سامان سے آراستہ ڈویژن تھا جسکا قیام ۱۹۴۵ء میں عمل میں آیا تھا۔ چونڈہ کے محاذ پر اس بھارتی ڈویژن کی قیادت جنرل راجندر سنگھ کر رہا تھا جسے دوسری جنگ عظیم لڑنے کا تجربہ تھا اور بھارت نے اسکی دھاک بٹھانے کے لیے اسے مہاویر چکر بھی دے رکھا تھا لیکن وہ اپنے جنگی سہولتوں سے مالا مال ڈویژن ، تین انفنٹری ڈویژن اور توپخانے کی مدد کے باوجود چونڈہ کے محاذ سے شکست کھا کر واپس لوٹ گیا۔ میجر جنرل ابرار حسین اسکو اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے کہیں زیادہ اپنے جوانوں اور افسروں کی بہادری کا نتیجہ قرار دیتے ہیں جنھوں نے تعداد میں کم ہونے کے باوجود کسی بھی شگاف سے دشمن کو آگے نہیں بڑھنے دیا اور دشمن کے ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔ میدان جنگ میں بزدلی اور شجاعت دکھانے کا جو واقعہ دوسری جنگ عظیم سے شروع ہوا وہ جنگ ستمبر کو بھی متاثر کر گیا۔ جنرل ایوب کی محب الوطنی پر کوئی شک نہیں لیکن یہ واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ اگر انسان میں جرات کا فقدان ہو تو اسکی تمام خوبیاں بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں بلکہ یہ بات کبھی کبھار انسان کو شدید خطرات سے دو چار کر دیتی ہے اور اگر وہ سربراہ مملکت اور فیلڈ مارشل بھی ہوتو ملک و قوم کی بقا خطرے میں پڑ جایا کرتی ہے جسے قوم کے بہادر و غیور بیٹوں کو اپنے خون اور جانوں کا نظرانہ دے کر ٹالنا پڑتا ہے۔ آج ہم پاک فوج کے ان غازیوں اور شہیدوں کا خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنھوں نے اعلی قیادت کی ان غلطیوں کی قیمت اپنی جانوں کے نظرانے دے کر ادا کی۔ وطن کی آزاد فضائیں ہمیشہ انکو یاد رکھیں گی۔