اسلام آباد(نئی دنیا )وزیراعظم عمران خان نےکہاہےکہ دنیاکوکورونا کے ساتھ ساتھ معاشی بحران اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا خطرہ ہے،نائن الیون کے بعد اسلام کو دہشت گردی سے جوڑا جارہاہے،اسلامو فوبیاکی سب سےخوفناک اوربھیانک شکل بھارت میں پنجےگاڑھےہوئےہے،ہم سب کومل کراسلاموفوبیا کامقابلہ کرنا ہوگا،بھارت میں مسلمانوں کےقتل عام کاسلسلہ جاری ہے،بی جےپی حکومت کی فاشسٹ آر آر ایس 20 کروڑمسلمانوں کےلیےخطرہ ہے،بھارت اورپاکستان کےدرمیان ایک اورممکنہ جنگ کوروکناضروری ہے،سید علی شاہ گیلانی کی میت کو خاندان سے چھیننا بھارتی بربریت کی تازہ مثال ہے،بدقسمتی ہے کہ دنیا کا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کےحوالےسےرویہ مساوی نہیں،ترقی پذیرممالک کےبدعنوان حکمرانوں کی وجہ سےامیراورغریب ملکوں میں فرق بڑھ رہاہے،امیرممالک کوغیرقانونی طورپربھیجی گئی رقم واپس کرناہوگی،افغان جنگ کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا،ہمیں سراہنےکےبجائےالٹاہم پر الزام تراشی کی جاتی ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ورچوئل خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ دنیا کو کورونا کے ساتھ ساتھ معاشی بحران اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا خطرہ ہے،دنیا کو 3طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے،موسمیاتی تبدیلی ہماری بقا کو درپیش خطرات میں سے ایک ہے،دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں،پاکستان اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح واقف ہے،پاکستان نے ایک انقلابی ماحولیاتی پروگرام کا آغاز کیاہے،پاکستان انقلابی پروگرام کے تحت 10ارب درخت لگارہاہے،قدرتی ماحول کو محفوظ اور اپنے شہروں سے آلودگی کا خاتمہ کررہےہیں،پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا مقابلہ کرنے کےلیے خودکو تیار کررہا ہے ۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان کورونا پر قابو رکھنے میں کامیاب رہاہے،ہم نے مشترکہ منصوبہ بندی اورسمارٹ لاک ڈاون کی وجہ سے کوروناپرقابو پایا،انسانی زندگی رواں دواں رہی اور معیشت کا پہیہ بھی چلتارہا، وائرس اقوام اور لوگوں کے درمیان تفریق نہیں کرتا،ہمیں درپیش خطرات سے مل کر مقابلہ کرنا ہوگا۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ترقی پذیر ممالک کے بدعنوان حکمرانوں کی وجہ سے امیر اور غریب ملکوں میں فرق بڑھ رہاہے، سات ہزار ارب ڈالر کے خطیر چوری شدہ اثاثے محفوظ اداروں میں چھپائے گئے ہیں،چوری اور اثاثوں کی غیر قانونی منتقلی کے ترقی پذیر ملکوں پر دور رس منفی اثرات پڑے ہیں، کرپشن اور لوٹ مار سے غربت کی سطح میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے،منی لانڈرنگ کے ذریعے رقم ملک سے باہر بھیجی جاتی ہے،منی لانڈرنگ کےباعث کرنسی پردباؤ اور اس کی قدر میں کمی ہوتی ہے،ایک اندازے کے مطابق ہرسال ایک ہزار ارب ڈالر ترقی پذیر ملکوں سے بھیجے جاتےہیں،ترقی یافتہ ملکوں سے چوری شدہ اثاثوں کی واپسی ناممکن ہے،امیر ممالک کو غیرقانونی طور پر بھیجی گئی رقم واپس کرنا ہوگی،غیر قانونی طور پر حاصل شدہ دولت ترقی پذیر ملکوں کے عام عوام کی ملکیت ہے،جنرل اسمبلی کو ٹھوس اقدامات کرنے ہونگے
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہم سب کو مل کر اسلامو فوبیا کا مقابلہ کرنا ہوگا،نائن الیون کے بعد اسلام کو دہشتگردی سے جوڑا جارہاہے،مسلمانوں کو انتہاپسند اور دہشت گرد گروہ نشانہ بنارہےہیں،دنیا کو دہشت گردی اور ابھرتے ہوئے خطرات کو تسلیم کرنا ہوگا، اسلامو فوبیا کا تدارک کرنے کےلئے بین الاقوامی مکالمہ شروع کرائیں،ہمیں بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کیلئے مشترکہ کوششیں جاری رکھنی چاہئیں.
انہوں نے کہا کہ اسلامو فوبیا کی سب سے خوفناک اور بھیانک شکل بھارت میں پنجے گاڑھے ہوئے ہے،بی جے پی حکومت کی فاشسٹ آر آر ایس 20کروڑ مسلمانوں کے لیے خطرہ ہے، بھارت میں مسلمانوں کے قتل عام کا سلسلہ جاری ہے،جیسے گزشتہ برس نئی دہلی میں ہوا،بھارت سے مسلمانوں کو نکالا جارہاہے،بھارت میں مساجد کو شہید اور اسلامی تاریخی ورثے مٹائے جارہے ہیں،بھارت نے کمشیر میں غیرقانونی اقدامات کر رکھےہیں،بھارت نےمقبوضہ کشمیرمیں9لاکھ فوج کےذریعےخوف پھیلایاہواہے،مقبوضہ کشمیرمیں انٹرنیٹ اورمیڈیاپرمکمل طورپر پابندی ہے،بھارت نےہزاروں کمشیریوں کواغواکررکھاہے،پرامن مظاہروں کےدوران سینکڑوں کشمیریوں پر تشدد کیاگیا،بھارتی پولیس نے جعلی مقابلوں کے دوران سینکڑوں کشمیریوں کو شہید کیا۔
انہوں نےکہاکہ پاکستان نےبھارت سےمتعلق ایک ڈوزیئرجاری کیاہے،ڈوزیئرمیں بھارت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی گئی ہے،جبر کے ساتھ ساتھ مقبوضہ علاقے کی آبادی کا تناسب بدلنے کی کوششیں بھی جاری ہیں،بھارت کی جانب سےمقبوضہ جموں و کشمیر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں،مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی کارروائیاں بین الاقوانی قوانین کے خلاف ہیں،بدقسمتی ہےکہ دنیاکاانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کےحوالےسےرویہ مساوی نہیں،بڑی طاقتوں کو علاقائی سیاسی معاملات اورکاروباری مفادات مجبورکردیتےہیں،مفادات کی خاطرطاقتورممالک بھارت جیسےممالک کی خلاف ورزیوں کو نظرانداز کرتےہیں،بی جے پی کی حکومت اورآرایس ایس کوانسانی حقوق کی پامالی کی کھلی اجازت دی گئی ہے،سیدعلی گیلانی کی میت کو خاندان سے چھیننا بھارتی بربریت کی تازہ مثال ہے،سیدعلی گیلانی کی تدفین کو اسلامی طریقہ کار کے حق سے محروم رکھا گیا،سید علی گیلانی کی نمازجنازہ اور تدفین اسلامی روایات کے مطابق نہیں ہونے دی گئی۔
وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سید علی گیلانی کی تدفین اسلامی روایات کےمطابق کرائی جائے،سیدعلی گیلانی کی تدفین شہداقبرستان میں کرائی جائے،مقبوضہ جموں وکشمیر میں آبادی کے تناسب میں کی جانے والی تبدیلیوں کو روکا جائے،کشمیر کے عوام کے خلاف ظلم و جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکی جائیں،بھارت 5 اگست 2019ء کے غیر قانونی اقدامات کو منسوخ کرے،جنوبی ایشیا میں پائیدارامن کا دارومدار مسئلہ کشمیر کااقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل پر ہے،بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک اور ممکنہ جنگ کو روکنا ضروری ہے،بھارت کی فوجی اور جدید جوہری ہتھیاروں کی تیاری خطے میں عدم استحکام کاباعث ہے۔
اُنہوں نےکہاکہ گذشتہ فروری میں ہم نےکنٹرول لائن پرجنگ بندی کے 2003ءکے معاہدے کا اعادہ کیا اور امید یہ تھی کہ اس سے دہلی میں حکمت عملی پر دوبارہ غوروخوض ہوگا لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بی جے پی کی حکومت نے کشمیر میں مظالم کی انتہا کر دی ہے اور وہ اس بربریت سے ماحول کو بگاڑنے کی کوشش میں ہے،اب یہ بھارت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کےلیےسازگارماحول بنائے، بھارت کی جدید جوہری ہتھیاروں کی تیاری اورعدم استحکام پیداکرنےوالی روایتی صلاحیتوں کاحصول دونوں ممالک کے درمیان موجود ڈیٹرنسس کو بے معنی کر سکتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ افغانستان کے موجودہ حالات پر امریکہ اور یورپ کے سیاستدان پاکستان پر الزام تراشی کر رہے ہیں،پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں 80 ہزار سے زائد جانوں کی قربانی دی ہے ،افغانستان میں جنگ کاسب سےزیادہ نقصان پاکستان کو ہوا،ہماری معیشت کو 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا اور پاکستان میں35لاکھ افرادبےگھرہوئےتویہ سب کیوں ہوا؟1980ءمیں پاکستان افغانستان کی لڑائی میں ہراول دستہ تھا،افغانیوں کی آزادی کےلیےامریکہ اورپاکستان نے مل کرمجاہدین کوتربیت دی تھی،80کی دہائی میں افغانستان پرغیرملکی قبضےکے خلاف پاکستان نےہراول دستے کاکرداراداکیا،مجاہدین کوہم نےبتایاتھاغیرملکیوں کےخلاف جہادمذہبی فریضہ ہے،اس وقت افغان مجاہدین ہیرو کہلاتے تھے اورامریکی صدر انہیں وائٹ ہاوس بلاتےتھے،صدررونالڈریگن نے1983ءمیں افغان مجاہدین کووائٹ ہاؤس میں دعوت دی، رونالڈ ریگن نےافغان مجاہدین کاموازنہ امریکہ کےبانیوں کےساتھ کیا،روس کی شکست کے بعد افغانستان کا ساتھ چھوڑ دیا گیا، 1989ء میں سویت یونین کے نکلنے کے ساتھ امریکابھی واپس چلاگیا،پاکستان کو 50 لاکھ افغان پناہ گزینوں کےساتھ تنہاچھوڑدیاگیا،ہمارےیہاں مذہبی فرقہ پرستی پھیلانےوالے عسکری گروپس آگئے جن کا پہلے کوئی وجود نہ تھااور بدترین صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب ایک سال بعد امریکہ نے پاکستان پر پابندیاں عائد کردیں،نائن الیون کےبعدامریکہ کوایک بارپھرپاکستان کی ضرورت پڑی توہم دوبارہ امریکی جنگ کاحصہ بنے کیونکہ اب امریکہ کی زیرقیادت اتحاد اٖفغانستان پر حملہ کرنے جا رہا تھا اور پاکستان کی لاجسٹک سپورٹ کے بغیر ایسا ممکن نہیں تھا،اس کے بعد کیا ہوا؟ وہی مجاہدین جن کو ہم نے غیر ملکی قبضے کے خلاف جنگ کے لیے تیار کیا تھا وہ ہمارے مخالف ہو گئے اور ہمیں شریک گردانا گیا،امریکہ کی مددکرنےپرمجاہدین نےہمارےخلاف جنگ چھیڑدی،افغان کیمپوں میں رہائش پذیرافرادطالبان کےلیے ہمدردی کاجذبہ رکھتےتھے،امریکی جنگ کےباعث ہماری فوج قبائلی علاقوں میں بھیجی گئی،جنگ کےدوران نقصان کابدلہ لینےکےلیےعسکریت پسندوں کی تعدادکئی گنابڑھ گئی،جن لوگوں کےپیارے مارے گئےانہوں نےپاکستان سےبدلہ لیا،دو ہزار چار سے دو ہزار چودہ تک 50 مختلف عسکری گروپ پاکستان پر حملہ آور رہے،پہلی بار پاکستان میں عسکریت پسند طالبان سامنے آئے جنہوں نے پاکستانی حکومت پرحملے کیے اورہماری تاریخ میں فوج قبائلی علاقوں میں پہلی مرتبہ گئی ،جب بھی فوج شہری علاقوں میں جاتی ہے تو اس کے نتیجے میں بلا تخصیص نقصان ہوتا ہے،یہاں بھی بلا تخصیص نقصان ہوا جس کے نتیجے میں بدلہ لینے کیلئے عسکریت پسندوں کی تعداد دوگنی اور تگنی ہوگئی۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ دنیاکومعلوم ہوناچاہیےامریکہ نے پاکستان میں 480 ڈرون حملے کیےاور سب جانتےہیں کہ ڈرون حملے اپنے ہدف کو درست نشانہ نہیں لگا سکتے ہیں، وہ ان عسکریت پسندوں کےمقابلے میں جنکو وہ نشانہ بنا رہے ہوتے ہیں زیادہ نقصان کرتے ہیں،جن لوگوں کے پیارے مارے گئے اُنہوں نے پاکستان سےبدلہ لیا،ایک وقت تھا جب میرےجیسےلوگ پریشان تھےکہ کیا ہم اس صورتحال کا کامیابی سے مقابلہ کر لیں گے؟اس وقت پاکستان میں ہر طرف بم دھماکے ہو رہے تھے اور ہمارا دارالحکومت ایک قلعے کی مانند دکھائی دیتا تھا،اگر ہماری فوج نہ ہوتی جو کہ دنیا کہ انتہائی منظم افواج میں سےایک ہے اور ہماری انٹیلی جنس ایجنسی بھی دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسیوں میں سے ایک ہے تو میرا خیال ہے کہ پاکستان نیچے چلا جاتا،ہماری فوج اور ایجنسی کی بدولت ہم اس مشکل صورتحال سےکامیابی کے ساتھ نکلے،ہمیں سراہنے کے بجائےالٹاہم پر الزام تراشی کی جاتی ہے،ہم نے جو اس قدر مشکلات کا سامنا کیا ہے اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہم افغانستان کے خلاف جنگ میں امریکی اتحاد کے ساتھ تھے،ہمارے لیے کم از کم تعریف کا ایک لفظ ہی کہا جاتا لیکن جب سراہنے کی بجائے تصور کریں کہ ہم پر افغانستان کے حوالے سے الزام تراشی کی جاتی ہے تو ہمیں کیسا محسوس ہوتا ہے؟۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 2006ءمیں امریکہ گیا،سینیٹربائیڈن،جان کیری اورجان ریڈسےملاقات کی،میں نےاس وقت ان کوسمجھانےکی کوشش کی افغانستان کاکوئی عسکری حل نہیں،کسی نےمیری بات نہ سمجھی اورامریکہ نےفوجی حل تلاش کرنےکی غلطی کی،آج دنیاجانناچاہتی ہےطالبان دوبارہ اقتدارمیں کیسےآگئے؟ تو اسے ایک تفصیلی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہوگی کہ کیوں تین لاکھ نفوس پر مشتمل سازو سامان سے لیس افغان فوج بھاگ کھڑی ہوئی؟یادرکھیں کہ افغان قوم دنیاکی بہادرترین اقوام میں سےایک ہےلیکن اس نے طالبان کا مقابلہ نہیں کیا،جب اس کا تفصیلی تجزیہ کیا جائے گا تو دنیا کو معلوم ہوجائے گا کہ طالبان اقتدار میں واپس کیوں آئےہیں؟یہ سب کچھ پاکستان کی وجہ سےنہیں ہے،اس وقت ساری عالمی برادری کوسوچنا چاہیے کہ آگے بڑھنے کا راستہ کیا ہے؟ ہمارے پاس دو راستے ہیں،اگر اس وقت ہم اٖفغانستان کو پس پشت ڈال دیں گے تو افغانستان کے آدھے عوام جن کو پہلے ہی مشکلات کا سامنا ہے اور اقوام متحدہ کے مطابق اگلے سال تک افغانستان کے 90 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے،ہمیں آگے ایک بہت بڑے انسانی بحران کا سامنا ہے جس کے سنگین اثرات افغانستان کے ہمسایوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر جگہ ہوں گے اور غیر مستحکم و بحران سے دوچارافغانستان ایک بار پھر بین الاقوامی دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن جائے گا،اس لیے آگے جانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ہم افغان عوام کی خاطر لازمی طور پر موجودہ حکومت کومستحکم کریں،طالبان نےوعدہ کیا تھا کہ وہ انسانی حقوق کا احترام کریں گے، ایک مخلوط حکومت بنائیں گے،وہ اپنی سرزمین کو دہشتگردوں کو استعمال کرنے نہیں دیں گے،طالبان نے عام معافی کا اعلان کیا ہے اوراگر اب عالمی برادری ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور ان کے ساتھ بات چیت کرتی ہے تو یہ سب کے لیے کامیابی ہو گی کیونکہ یہ وہ چار چیزیں تھیں کہ جب دوحہ میں امریکہ کے طالبان کے ساتھ مذاکرات ہو رہے تھے تو بات چیت کا محور یہی باتیں تھیں، اگر دنیا اس سمت میں آگے بڑھنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہےتو امریکہ اتحاد کی افغانستان میں 20 سال کے دوران کی جانے والی کوششیں ضائع نہیں ہوں گی کیونکہ افغانستان کی سرزمین بین الاقوامی دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی،میں سب پرزوردوں گاکہ یہ افغانستان کےلیےنازک وقت ہےاوروقت کوضائع نہیں کرسکتےہیں،وہاں امداد کی ضرورت ہے تو عالمی برادری کو اس مقصد کے لیے متحرک کریں۔