پاکستان سول ایوی ایشن حکام نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہوا بازی کو بتایا کہ پائلٹس کے جعلی لائسنس بنانے کے لیے سات سے آٹھ لاکھ روپے وصول کیے جاتے تھے۔
سینیٹر ہدایت اللہ کی سربراہی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس پارلیمنٹ لاجز میں ہوا جس میں سول ایوی ایشن کے حکام نے پائلٹس کے جعلی لائسنسز کے حوالے سے بریفنگ دی۔
حکام نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ’2010 کے بعد پائلٹس کے لائسنسنگ کا ٹیسٹ کمپیوٹرائزڈ کیا گیا جس میں کچھ تکنیکی خامیاں موجود تھیں، اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چھٹی والے دان گھر بیٹھ کر یا کسی اور کی جگہ ٹیسٹ دینے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔
کمیٹی کے رکن سینیٹر عون عباس کے سوال پر سول ایوی ایشن حکام نے بتایا کہ ’مختلف پیپرز کے لیے مختلف رقم وصول کی جاتی تھی تاہم تمام پیپرز کو حل کرنے کے لیے مکمل پیکج سات سے آٹھ لاکھ روپے وصول کیے جاتے تھے۔‘
حکام نے بتایا کہ ’یہ معاملہ ایف آئی اے کو بھجوایا گیا جس میں پورے نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کی گئی اور اس وقت سول ایوی ایشن کے چھ ملازمین کے خلاف مقدمات چل رہے ہیں اور وہ جیل میں ہیں جبکہ انہیں ملازمت سے برطرف کر دیا گیا ہے۔‘
حکام کے مطابق ’چھ میں سے چار افراد ملازمت سے برطرف ہو چکے ہیں جبکہ دو نے عدالت سے رجوع کر رکھا ہے۔‘
کمیٹی کے رکن سلیم مانڈی والا نے کہا کہ ’سول ایوی ایشن اب بھی 1950 کے طرز پر لائسنس جاری کرتا ہے، اس پرانے نظام سے باہر نکلیں اور جدید تقاضے اپنائیں۔ ایک لائسنس کے لیے 14 پیپرز لیے جاتے ہیں یہ کس دور میں رہ رہے ہیں آپ، اگر اسی طرح پرانے نظام پر کام کرتے رہے تو پھر بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا تو کرنا پڑے گا۔‘
’غیر ملکی ایوی ایشن کمپنیاں پی آئی اے کو منافع بخش روٹس کی اجازت نہیں دیتی‘
پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) کے چیف ایگزیکٹو اافسر ارشد ملک نے کمیٹی کو بتایا کہ ’متعدد ممالک کی جانب سے پی آئی اے کو روٹس کی اجازت نہیں دی جاتی جبکہ ان ممالک کے ایئر لائنز کو پاکستان سول ایوی ایشن کی طرف سے فلائٹ آپریشن کی اجازت ہے۔‘
وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کمیٹی کو بتایا کہ ’اس معاملے پر کابینہ میں بھی بحث ہوئی ہے اور دفتر خارجہ کو اس حوالے سے تمام سفارتخانوں کو کام کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس معاملے کو ہم دیکھ رہے ہیں۔
سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ ’یہ تو ایسا معاملہ ہے جو سفارتخانے کو معمول کے مطابق دیکھنا چاہیے، سفارتکار کیا کر رہے ہیں اگر وہ پی آئی اے کو لینڈنگ حقوق ہی نہیں دلوا سکتے، میں جب سفیر تھی تو صبح شام سب سے اولین کام ہی پی آئی اے کے لینڈنگ حقوق کی بات ہوتی تھی۔‘
کمیٹی نے اس معاملے پر وزارت خارجہ کے نمائندے سے بریفنگ لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے آئندہ اجلاس کے لیے طلب کر لیا ہے۔
ایئر مارشل ارشد ملک نے کمیٹی کو بتایا کہ ‘ہم کوئی بھی چیز خریدتے ہیں تو پیپرا رولز کی منظوری آڑے آجاتی ہے اور پیپرا سے منظوری آتے آتے چھ ماہ لگ جاتے ہیں جبکہ دیگر نجی ایئرلائنز اپنی ضرورت کے مطابق ایک روز میں اپنی ڈیل کر لیتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’طیاروں کے لیز کے لیے 4 کمپنیوں سے بات کی جا رہی تھی تاہم پیپرا رولز کی وجہ سے کمپنیوں سے ڈیل نہیں ہو پائی۔‘
سینیٹر سلیم مانڈی والا نے اس موقع پر کہا کہ’وزیراعظم کو سمری بھیج کر پیپرا رولز سے استثنیٰ لے لیں۔ پیپرا رولز کو فالو کریں گے تو پی آئی اے کبھی جہاز لیز پر نہیں لے سکے گا۔‘
جس پر سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ پیپرا رولز سے استثنیٰ بالکل نہیں دینا چاہیے اس سے شفافیت متاثر ہوگی جبکہ ایسی ڈیلز ہوں تو پیپرا سے اس کی منظوری کے عمل کو تیز کرنے کی درخواست کرنی چاہیے۔
پی آئی اے کے ملازم پر ہراسمنٹ کیس کا جائزہ
کمیٹی نے پی آئی اے کے سابق چیف ایگزیکٹو کے معاون کامران انجم کے خلاف ہراسمنٹ کیس کا بھی جائزہ لیا۔
جس میں پی آئی اے کی جانب سے بتایا گیا کہ کامران انجم نے سینیٹ کی کمیٹی کے سفارشات کے خلاف عدالت سے رجوع کر رکھا ہے۔
اس معاملے پر سینیٹر شیری رحمان نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘پارلیمنٹ کی کمیٹی کی سفارشات کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہوسکتی، پی آئی اے ایک ہراساں کرنے والے ملازم کی حمایت کر کے ادارے کو بدنام کر رہا ہے۔‘
خیال رہے کہ کامران انجم پر ان کی ماتحت کام کرنی والی خاتون کو ہراساں کرنے کا الزام ہے جس پر قائمہ کمیٹی نے تین ماہ تک کیس کا جائزہ لینے کے بعد کامران انجم کو پی آئی اے سے برطرف کرتے ہوئے ایئر فورس میں واپس بھیجنے کی سفارش کر رکھی ہے۔ تاہم کمیٹی کی سفارش پر تاحال عملدرآمد نہیں کیا جاسکا۔‘
سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ ‘ایک ہراساں کرنے والے شخص کا ادارہ دفاع کر رہا ہے اس کو ایئر فورس واپس نہیں بلکہ کورٹ مارشل ہونا چاہیے، میں یہ معاملہ عدالت میں لے کر جاؤں گی۔‘
وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان نے کمیٹی کو آئندہ کمیٹی کے اجلاس پر کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد کی یقین دہانی کرا دی۔