میرے پیارے بیٹو! تم اپنے دل کی گہرائیوں سے حلقہ بگوش اسلام ہوئے ہو اور اپنی رضا مندی سے راہ خدا میں ہجرت کر کے آئے ہو،تم پر کسی قسم کا جبرواکراہ نہیں کیا گیا۔یاد رکھو اللہ کے سوا کوئی دوسرا لائق عبادت نہیں،جس طرح تم ایک ماں کے بیٹے ہو،اسی طرح ایک ہی باپ کے فرزند ہو۔میں نے نہ کبھی تمہارے باپ سے خیانت کی اور تمہارے ننھیال کو رسوا کیا۔تمہارا نسب بے داغ اور تمہارا حسب بے عیب ہے۔تم خوب جانتے ہو کہ مسلمانوں پر اللہ کی طرف سے مخالفین اسلام کے خلاف جہاد کرنا فرض ٹھہرایا گیا ہے۔اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لو کہ عالم جاودانی کے مقابلے میں یہ دنیائے فانی ہیچ ہے۔
میرے دل کے ٹکڑو! دشمن سے پنجہ آزمائی کرنے اور اس سے تیغ زن ہونے میں صرف ایک رات کا فاصلہ باقی ہے۔جونہی چہرہ شب سے یہ پردہ سیاہ اترا،تم دشمن کے مقابلے میں کھڑے ہوگے۔سورج کی روشن اور تابناک کرنیں، تمہاری شمشیر خارا شگاف کے جوہر دیکھنے کیلئے بے تاب ہیں۔تمہارے اندر پاکیزہ خون گردش کناں ہے،بہادری تمہارا شیوہ اور لڑائی تمہارا پیشہ ہے۔
جب تم دیکھوکہ لڑائی پورے زور سے شروع ہو گئی ہے،آتش جنگ کے شعلے چاروں طرف بھڑکنے لگے ہیں اور اس کے خوفناک شرارے پوری طاقت سے میدان محاربہ میں پھیل گئے ہیں تو لڑائی میں کود پڑو،بے جگری سے لڑو،شمشیر خارا شگاف کو ہاتھ میں تھام کر دشمنان اسلام کی بیخ کن کرتے ہوئے مسلسل آگے بڑھتے جاؤ اور فتح و کامرانی کے لئے آخری سہارا اللہ کی ذات اقدس کو سمجھو،ان شاء اللہ ضرور کامیابی سے ہمکنار ہوگے۔دشمن کے مقابلے میں میدان جنگ میں جیت جانا بھی کامیابی ہے۔جاؤ ان دو نعمتوں میں سے جو بھی حاصل کر سکتے ہو کر لو،میں تمہاری وجہ سے اسلام کی سر بلندی کی خواہاں ہوں۔جاؤ میرے دودھ کی لاج اور اپنے خاندان کے خون کی آبرو رکھنا۔ مسلمان کیلئے شہادت کی موت افضل ترین موت ہے۔یہ وہ الفاظ ہیں جو عرب کی مشہور شاعرہ حضرت تماضر(خنساء) رضی اللہ عنہما نے اپنے چاروں بیٹوں کو قادسیہ کے محاذ جنگ پر روانہ کرتے ہوئے کہے۔
مذہب اسلام کے ماننے والوں کی بھی ایک عظیم اور مثالی تاریخ ہے اور اس تاریخ میں نہ صرف یہ کہ مردوں کے کارنامے ہیں بلکہ مردوں کیساتھ ساتھ عورتوں کے بھی حیرت انگیز و قابل ذکر کارنامے ہیں۔ مسلم خواتین نے نہ تو ترک دنیا کیا اور نہ ہی رہبانیت اختیار کی،نہ عیسائی راہبہ کی طرح فرائض نسل سے اپنے اپنے آپ کو بیزار رکھا اور نہ ہی دیوداسیوں کی طرح پتھر کی مورت کیساتھ رشتہ زوجیت میں منسلک ہوئیں،بلکہ کامیاب ازدواجی زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ شجاعت و سخاوت،تقویٰ و پرہیزگاری،حق گوئی و خدمت خلق کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔ان کے اندر اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کا ایسا جذبہ پیدا ہوا کہ سارا نسلی غرور خاک میں مل گیا اور دین پسندوں کی وہ عزت ان کے دل میں سما گئی کہ صرف غلام ہی نہیں بلکہ غلام ابن غلام کی زوجیت میں رہنا ان کے لئے باعث افتخار بن گیا۔
اسلامی تاریخ میں ایسی خواتین بھی گذری ہیں جن کے سامنے اچھے اچھے سیاستداں اور حرب و ضرب کے ماہر اپنے آپ کو بے بس پاتے،ان کی زبان کی کاٹ تلوار سے بھی تیز ہوتی اور بعض کے اشعار دشمن کیلئے شمشیر برہنہ سے کم نہ ہوتے، جنہوں نے شاہی غیظ و غضب کی بھی پرواہ نہیں کی اور شاہی خاندان کے بعض خود سر افراد کے غرور تمکنت کا جنازہ نکال دیا۔بعض نے ملکی سیاست میں بھی حصہ لیا اور اپنی عقل و دانش سے مملکت کی بہت سی پیچیدہ گتھیوں کو سلجھایا۔فتنوں کی سرکوبی اور باطل فرقوں کی سرگرمیوں کی مخالفت و تردید میں بھی عورتوں کی کارکردگی سے تاریخ کے صفحات خالی نہیں ہیں۔دعا گو ہوں کہ اللہ ہم مسلمان عورتوں کو دین دنیا،مذہبی و معاشرتی اقداروں کو پھر سے بحال کرنے اور اپنی نسلوں کو سنوارنے کیلئے مدد ونصرت عطا کرے،تاکہ اللہ ہم سب سے راضی ہو۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین ثم آمین
ایک ماں کا معاشرتی کردار
تحریر آصفہ ہاشمی