سپریم کورٹ کا دبنگ فیصلہ، پانچوں ججز نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کالعدم ، اسمبلی کی تحلیل غیر آئینی قرار دے دی، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا حکم

اسلام آباد (ڈیسک نیوز) سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی بحال کردی۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے پانچ صفر سے متفقہ فیصلہ سنایا۔

سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ غیر آئینی قرار دے دی۔ سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم صدر کو ایڈوائس نہیں کرسکتے تھے، اب تک کے اقدامات غیر آئینی اور غیر قانونی تھے۔ عدالت نے صدر کے عبوری حکومت کے حکم کو بھی کالعدم قرار دے دیا۔
سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی بحال کرتے ہوئے 9 اپریل کو ہفتے کی صبح 10 بجے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا حکم دے دیا۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ سپیکر اجلاس بلا کر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرائیں گے، تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں نئے وزیر اعظم کا انتخاب ہوگا۔عدالت نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ کسی بھی رکن قومی اسمبلی کو ووٹ کاسٹ کرنے سے نہیں روکا جائے گا۔

فیصلہ سنانے سے قبل چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر کے درمیان مکالمہ بھی ہوا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ الیکشن کے انعقاد کے متعلق الیکشن کمیشن آگاہ کرے گا، بتائیں کیا الیکشن کمیشن انتخابات کراسکتا ہے؟ اس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ وہ الیکشن کرانے کیلئے تیار ہیں لیکن حلقہ بندیاں نہیں ہوسکی ہیں، مئی 2021 میں حلقہ بندیاں کرانے پر کام شروع کردیا تھا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے پورے ملک میں حلقہ بندیاں کرنی ہیں یا پورے ملک کی کرنی ہیں؟ اس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ پورے ملک کی حلقہ بندیاں کرنا ہوتی ہیں، انہیں حلقہ بندیوں کیلئے چھ سے سات ماہ چاہئیں ۔چار ماہ حلقہ بندیوں کیلئے اور تین ماہ عبوری حکومت کیلئے چاہئیں۔

خیال رہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف 8 مارچ کو تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی تھی جس پر ووٹنگ کیلئے 3 اپریل کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا تھا۔ اجلاس کے روز متحدہ اپوزیشن جماعتوں نے سپیکر اسد قیصر کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد جمع کرائی جس کے باعث اجلاس کی صدارت ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے کی۔اجلاس کے دوران وفاقی وزیر قانون فواد چوہدری نے آرٹیکل پانچ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد دراصل غیر ملکی سازش ہے۔ ڈپٹی سپیکر نے ان کی اس دلیل کو تسلیم کرتے ہوئے رولنگ دی اور تحریک عدم اعتماد کو مسترد کردیا۔ قومی اسمبلی میں حکومت کا یہ “سرپرائز” سامنے آتے ہی وزیر اعظم نے صدرِ مملکت کو اسمبلی توڑنے کی سمری بھیج دی جو صدر نے قبول کرتے ہوئے قومی اسمبلی تحلیل کردی۔

حکومت کے اس سرپرائز کے نتیجے میں ملک میں ایک آئینی بحران پیدا ہوا جس کا چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے از خود نوٹس لیا اور اسی روز (3 اپریل) کو اس کی سماعت کی۔ اس حوالے سے چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا۔ بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔
عدالت کے سامنے اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے مخدوم علی خان، رضا ربانی اور فاروق ایچ نائیک پیش ہوئے جب کہ بابر اعوان ، علی ظفر اور اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے حکومت کی نمائندگی کی۔ کیس کی سماعت پانچ روز تک مسلسل جاری رہی جس کے دوران تمام فریقین نے دلائل پیش کیے جس کے بعدسپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جو ساڑھے سات بجے افطاری کے بعد سنانے کا حکم دیا گیا تاہم اس میں تاخیر ہوتی رہی۔ فیصلے سے قبل سپریم کورٹ کی سیکیورٹی بڑھا دی گئی اور غیر متعلقہ افراد کو سپریم کورٹ آنے سے روک دیا گیا۔ عدالت کے احاطے میں اینٹی رائٹس فورس سمیت سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات کی گئی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں