پاکستانی سفارت خانہ ڈنمارک میں

بالٹرو گلیشئیر اور کے۔ٹو تک کا پیدل سفر

سفارت خانہ پاکستان کوپن ہیگن ڈنمارک سفیر محترم احمد فاروق کے آنے کے بعد پاکستان میں سیاحت کے فروغ کے لیے مختلف تقریبات منعقد کرتا رہتا ہے۔اسی تناظر میں ڈینش مہم جُو، کوہ پیما، فوٹو گرافر اور پہاڑی علاقوں میں پیدل مہمات میں سفری گائیڈ کی حثیت سے کام کرنے والے بُو بیلویدیا کرسٹینسن کی کتاب Baltoro and K2 Basecamp Trekکی تقریبِ رونمائی کا اہتمام پاکستانی سفارت خانہ ڈنمارک میں کیا گیا۔اس تقریب کا اہم اور خوبصورت پہلو یہ تھا کہ اس میں ڈینشوں کی ایک اچھی تعداد نے خصوصی طور پر شرکت کی۔
تقریب کے آغاز میں سفیرِ محترم احمد فاروق نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوۓ کہا کہ اگر لوگوں سے پوچھا جاۓ تو بہت کم ایسے ہونگے جو پاکستان کے متعلق بحثیتِ ایک سیاحتی مقام کے کچھ زیادہ علم رکھتے ہوں اور یہ کہ سیر و سیاحت کے حوالے سے انھیں پاکستان میں کیا کیا مواقع میسر آ سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان سیاحت کے حوالے سے تمام قسم کے مواقع فراہم کرتا ہے آپکو یہ خوبصورت بلند و بالا پہاڑ، جھیلیں، خوبصورت وادیاں اور مختلف قدیم تہذیبوں کا مسکن ملے گا اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا کے بہترین کھانے تسکین دہن کے لیے حاضر ہونگے اور یقینا حاضرین میں کچھ ڈینش لوگ ایسے ہیں جو حال ہی میں پاکستان سے ہوکر آے ہیں اور وہ ان پاکستانی کھانوں کا لطف اٹھا چکے ہیں۔ پاکستان کے قدیم تاریخی ورثے میں انھوں نے ہوہنجو دڑو اور ہڑپہ کا خصوصی ذکر کیا۔ یہ پانچ ہزار سال قدیم تہذیبوں کے کھنڈرات ہیں جو باقاعدہ منصوبہ کے تخت آباد شہروں اور ایسے طرزِ تعمیر کی باقیات ہیں جس کی اس دور میں دنیا کے باقی خطوں میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ یہاں اسلام آباد سے کچھ دور ٹیکسلا شہر میں بدھ مت کی گندھار تہذیب کی باقیات بھی ملتی ہیں جس کے کھنڈرات تقریباً پاکستان کے شمالی علاقوں میں پھیلے ہوۓ ہیں اور جن کو عجائب خانوں میں محفوظ کر دیا گیا ہے جس سے سیاحوں کو اس خطے میں ہماری اس تہذیبی تاریخ کو جاننے کا موقع ملتا ہے۔
سفیر محترم احمد فاروق نے مغلیہ سلطنت کے اس خطے پر اثرات کا ذکر کرتے ہوۓ لاہور کی بات کی جہاں اس دور کی بعض اہم عمارتیں دیکھنے کو ملتی ہیں اور پھر اگر جنوب کی طرف بڑھیں تو آپکو مختلف قسم کے ثقافتی تجربات سے واسطہ پڑتا ہے مثلاً ملتان کا قدیم شہر جہاں صوفیانہ طرز حیات کا ذکر اور ان صوفیاء کے مزارات موجود ہیں اور اگر مزید جنوب کی طرف بڑھیں تو کراچی شہر آتا ہے جہاں پر قدیم قبروں پر مشتمل تاریخی قبرستان ہے لیکن ان سب سے اہم چیز پاکستان کے شمالی علاقہ جات ہیں جہاں آٹھ ہزار میٹر یا اس سے کچھ زائد بلند پانچ پہاڑ پاۓ جاتے ہیں جن میں کے-ٹو، نانگا پربت، گیشئیر بروم ون ،گیشئیر بروم ٹو اور براڈ پیک کا نام آتا ہے اور پھر اس خطے کی خوبصورتی جو سیاحوں کو دعوتِ نظارہ دیتی نظر آتی ہے۔ اپنے خطاب کے اختتام پر سفیرِ محترم نے پاکستان کے ڈنمارک کے ساتھ دوستانہ سیاسی تعلقات کے علاوہ عوامی سطح پر رابطوں پر بھی زور دیا جس کا بہترین ذریعہ سیاحت ہے جو ڈینشوں کا پاکستان کے عوام و ثقافت کو قریب سے دیکھنے اور جاننے کا موقع عطا کر سکتا ہے۔
سفیرِ پاکستان کے بعد مصنف بُو بیلویدیا کرسٹنسن نے اپنی کتاب اور پاکستان کے شمالی پہاڑی سلسلوں میں اپنی مہمات اور تجربات کے متعلق حاضرین سے خطاب کیا۔مصنف اس سے قبل بائیس کتابیں لکھ چکا ہے اور یہ تئیسویں کتاب ہے جو شمال مشرقی پاکستان کے آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے حسن کو بیان کرتی ہے۔ اس کتاب میں کے-ٹو بیس کیپ تک کے سفر تک علاقے کی خوبصورتی کو تصویروں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ کتاب بالٹرو گلئیشیر میں واقع بلند پہاڑوں کی طرف پیدل سفر کرنے کے تجربات کی داستان ہے جو انسان کی مہم جو فطرت کی غماض ہے مثلاً مصنف نے ایک چوٹی کے متعلق بتایا کہ مہم جُو اسکی ایک سمت سے چالیس دن لگا کر چوٹی پر پہنچتے ہیں اور پھر پیراشوٹ کے ذریعے پندرہ منٹ میں اسی کے دامن میں واپس اتر چکے ہوتے ہیں۔ مصنف نے اپنی کمپنی کے-ٹو ایڈونچر کی بنیاد پاکستان کے شمالی علاقوں کا سفر کرنے سے بہت پہلے رکھی تھی جو دراصل مہمات کی کُنجی Key to Adventure کا محفف بن جاتی ہے۔ مصنف اپنے پیشے اور تعلیم کے اعتبار سے علم الارض کا ماہر ہے لیکن آج اسکی شناحت ایک کوہ پیما گائیڈ کی ہے جس کا ذکر اسنے اپنی تئیس کتابوں میں کیا ہے جبکہ تقریبِ رونمائی میں متعارف کروائی جانے والے کتاب ہی تئیسویں کتاب ہے۔ یہ پاکستان کے شمال مشرقی پہاڑی علاقوں میں بالٹرو گلیشئیر کے گرد و پیش میں کے-ٹو بیس کیمپ تک پیدل سفر کی مہمات کے دلچسپ حالات و واقعات بیان کرتی ہے۔ اس کتاب کا مصنف اگرچہ پہاڑی علاقوں میں ایک گائیڈ کی حثیت سے کام کرتا ہے لیکن اسکے لیے جہاں ممکن ہو وہ کوہ پیمائی کا موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ہے۔ مصنف کی پاکستان میں سب سے پہلی مہم ۱۹۸۸ء میں تھی جب وہ لوگوں کے ایک گروپ کو اپنی راہنمائی میں بالٹرو گلیشئیر میں واقع گیشبروم پہاڑ کی طرف لے کر گیا تھا۔ مصنف نے بتایا کہ انھیں اپنے پیدل سفر میں منزل تک پہنچنے کے لیے سامان اٹھانے کے لیے وقتا فوقتا سو سے زائد افراد کی کراۓ پر خدمات حاصل کرنا پڑئیں اور یوں سیاح ان لوگوں کے لیے اس علاقے میں ایک آجر کی حثیت اختیار کر لیتا ہے جہاں کام کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کاش ہمیں اس ایک مثال سے سیاحت کے فروغ کی اہمیت کا اندازہ ہو جاۓ کہ یہ لوگوں کے روزگار اور ملکی معیشت کا سہارا دینے میں کیا کردار ادا کرسکتی ہے۔ پاکستان کے لوگوں کو نہ صرف روزگار ملے بلکہ سیاح آپکے اچھے رویوں کی یادیں لیے جب اپنے اپنے ملکوں کو واپس جائیں تو وہ لوگوں تو آپکی مہمان نوازی اور خلوص کا ذکر کریں اور یوں سیاحت کیسا شاندار ذریعہ ہے پیسے اور نیک نامی دونوں کما سکتے ہیں۔ بو بیلویدیا کرسٹنسن جیسے انسان ہمارے اس مقصد کو حاصل کرنے میں ہمارے مددگار ہیں جس نے اپنی کتاب میں پاکستان کے شمالی علاقوں کی خوبصورتی، ان علاقوں کے سادہ اور مخلص انسانوں کا ذکر یورپی اقوام تک اپنی کتاب کی شکل میں پہنچایا ہے اسکے لیے ہم بو بیلویدیا کرسٹنسن کے شکر گزار ہیں اور اپنے سفارت خانے کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں جس نے ہمیں اس خوبصورت محفل کا حصہ بننے کا موقع عطا کیا اور ہم کو موقع ملا کہ ہم مصنف کے دستخطوں کے ساتھ اسکی کتاب خرید سکے جو پاکستان کی خوبصورتی کو دنیا تک پہنچانے کی مصنف کی کوششوں کا شکریہ ادا کرنے کا بہترین طریقہ تھا۔

سفیر محترم احمد فاروق مصنف کے ساتھ

پاکستانی سفارت خانہ ڈنمارک میں

سفارت خانہ پاکستان کوپن ہیگن ڈنمارک
سفارت خانہ پاکستان کوپن ہیگن ڈنمارک

۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں