“مجھے کبھی بھی ایوب، موسی یا یحییٰ نے کمانڈ سے ہٹاۓ جانے کی وجہ نہیں بتائی۔ ان سب میں خود اعتمادی کا فقدان تھا۔ میرا خیال ہے اسکی وجہ اس وقت بتائی جاۓ گی جب میں نہیں رہوں گا۔” یہ الفاظ جنرل اختر حسین ملک کے ایک خط کے ہیں جو انھوں نے اپنے چھوٹے بھائی لیفٹیننٹ جنرل عبدالعلی ملک کو ۲۳ نومبر ۱۹۶۷ء کو انقرہ، ترکی سے لکھا تھا ۔ جنرل اختر حسین ملک نے ستمبر ۱۹۶۵ کی جنگ کے دوران آپریشن جبرالٹر اور گرینڈ سلام کی منصوبہ بندی کی جس کا اہم مقصد اکھنور پر قبضہ کرتے ہوۓ کشمیر میں موجود بھارتی فوج کی سپلائی لائن کو کاٹ دینا تھا جس سے بھارتی فوج شدید دباؤ میں آ جاتی اور بھارت جب تک کشمیر میں پھنسی اپنی فوج کی گردن پاکستانی فوج سے نہ چھڑوا لیتا اسوقت تک لاہور اور سیالکوٹ کی بین الاقوامی سرحدوں پر حملہ کرنے کی جرات نہ کرسکتا تھا۔کشمیر ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس محمد صراف اپنی کتاب “کشمیری فائٹ فار فریڈم” میں اسکی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ اگر جنرل اختر کو اپنے فرض کی ادائیگی سے نہ روکا جاتا تو وہ اتنی بڑی کامیابی سمیٹنے والے پاکستان کے واحد جنرل ہوتے اور جنرل ایوب کے لیے انتہائی مشکل ہوجاتا کہ وہ اسے جنرل موسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد کمانڈر انچیف کے عہدے کے لیے نظر انداز کرسکتا۔ اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کا خیال تھا کہ جنرل اختر ملک کو کشمیر کے چھمب جوڑیاں محاذ پر روک نہ دیا جاتا تو وہ کشمیر میں ہندوستانی افواج کو تہس نہس کر دیتے مگر ایوب خان تو اپنے چہیتے جنرل یحیٰی خان کو ہیرو بنانا چاہتے تھے۔
جنگ کے عین درمیان میں کمانڈ کی اس تبدیلی نے آغاز میں ہی آپریشن مقدر کا فیصلہ کر دیا۔ کمانڈ کی تبدیلی میں چھتیس گھنٹے ضائع کر دیے گے اور اس وقت کو بھارتی جنگی مورخین نے بھگوان کی دین قرار دیا کیونکہ اس سے انھیں کمک بھیج کر اکھنور کا دفاع مضبوط کرنے کا موقع مل گیا۔ جنرل اختر حسین ملک نے اپنے اسی خط میں لکھا ہے کہ انھوں نے جنرل یحیٰی سے درخواست کی کہ وہ ایک ماتخت کی حثیت سے جنرل یحیٰی کی کمانڈ میں کام کرنے کو بھی تیار ہیں لیکن اکھنور پر حملے میں تاخیر نہ کی جاۓ۔ جنرل یحیٰی نے انکی یہ درخواست ماننے سے انکار کر دیا اور کمانڈ سنبھالنے کے بعد حملے کی پلانگ اور رخ ہی بدل دیا۔ جنرل یحیٰی نے ایسا کیوں کیا؟ بریگیڈئیر اے.اے.کے چوہدری (ہلال جرات) اپنی کتاب “ستمبر ۶۵” میں لکھتے ہیں کہ جب “بعد ازاں جنرل یحیٰی نے بحثیتِ کمانڈر انچیف سٹاف کالج کوئٹہ کا دورہ کیا تو میں نے اس سے پوچھا کہ اس نے اکھنور پر قبضہ کیوں نہ کیا۔ اس نے مختصر اور روکھا سا جواب دیتے ہوۓ کہا “تمہیں پتہ ہے مجھے ایسا نہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔” اب پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جنرل یحیٰی کو ایسا نہ کرنے کا حکم کس نے دیا تھا تو یہ جنرل ایوب کے سوا کوئی اور نہیں ہوسکتا تھا اور اگر جنرل موسیٰ نے بھی ایسا کیا ہوتو وہ فیلڈ مارشل کے مرضی کے خلاف ایسا کوئی حکم نہیں دے سکتا تھا۔ بریگیڈئیر چوہدری اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ جب پاکستانی فوج جنرل اختر کی قیادت میں بجلی کی سی تیزی کے ساتھ آگے بڑھتی چلی جا رہی تھی اور چھمب میں کامیابیوں نے اکھنور پر قبضے کو ایک یقینی امر بنا دیا تھا تو عین اس وقت کسی بیرونی طاقت نے مداخلت کی اور جنرل ایوب کو اس بات پر قائل کیا کہ اگر پاکستانی فوج نے اکھنور پر قبضہ کر لیا تو یہ بھارت کے لیے ایک بہت بڑا جھٹکا ہوگا اور وہ گھبرا کر پاکستان کی بین الاقوامی سرحدوں پر حملہ کر دے گا۔ اگر ایوب خان نے یہ فیصلہ بیرونی طاقت کے دباؤ میں آکر کیا تھا جس کو شاید وہ اپنا دوست سمجھ بیٹھا تھا تو آپریشن جبرالٹر کے اصل مقصد سے باز رہنے کی صورت میں اس دوست کو بھارت کو بھی باور کروانا چاہیے تھا کہ اب وہ پاکستان کی بین الاقوامی سرحدوں پر حملہ نہ کرے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ جونہی بھارت کشمیر کی طرف سے محفوظ ہوا اسنے لاہور اور سیالکوٹ پر حملہ کر دیا اور یوں کمانڈ کی تبدیلی اور اپنے اصل مقصد سے انحراف نے پاکستان کی سالمیت کو خطرے میں ڈال دیا۔ ہائی کمانڈ کی اس بزدلی اور جرات کے فقدان کا کفارہ نچلے درجے کے افسروں اور جوانوں نے اپنی جانیں دے کر ادا کیا جس کے لیے قوم ان شہیدوں کی ہمیشہ احسان مند رہے گی۔
جنرل اختر حسین ملک کا اندازہ درست ثابت ہوا۔ کمانڈ کی تبدیلی کا موضوع ۱۹۶۹ء میں انکی وفات کے بعد فوجی حلقوں میں زیر بحث آنا شروع ہوا اور اسکی مختلف تاویلیں اور جواز دیے جانے لگے۔ اب کہا جانے لگا کہ یہ بات پہلے سے طے تھی کہ آپریشن کے ابتدائی مرحلے میں کمانڈ جنرل اختر کریں گے اور بعد میں کمانڈ جنرل یحیٰی سنبھال لیں گے لیکن ایسا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ملتا بلکہ دانشور حسن عباس اپنی کتاب “پاکستان ڈرِفٹ ان ٹو ایکسٹریم ازم: اللّٰہ، دی آرمی اینڈ امریکہ وار آن ٹیرر” میں لکھتے ہیں کہ انھیں جی ایچ کیو میں ایک سینیر آرمی آفیسر نے اس آپریشن کے دستاویزات دکھاۓ جن میں کمانڈ کی تبدیلی کا کوئی ذکر تک نہیں ہے۔ ان حالات میں بریگیڈئیر چوہدری کی بات کافی حد تک درست لگتی ہے کہ ایوب خان بیرونی طاقت کے دباؤ میں آکر اکھنور پر قبضے کے پلان کو تبدیل کر بیٹھے اور یہ سمجھ بیٹھے کہ اب ہندوستان پاکستان پر حملہ نہیں کرے گا جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ جب ہندوستان نے آدھی رات کو لاہور پر حملہ کیا تھا تو وہاں رینجرو کے سوا ہماری فوج ہی موجود نہیں تھی۔ فوجی قیادت کی طرف سے اسکا الزام وزیر خارجہ بھٹو پر عائد کیا جاتا ہے کہ انھوں نے یقین دہانی کرائی تھی کہ بھارت کسی صورت میں پاکستانی کی بینالاقوامی سرحدوں کو عبور نہیں کرۓ گا۔ کیا فوجی قیادت اتنی عاقبت نا اندیش تھی کہ وہ تھوڑی دور تک بھی نہ دیکھ سکی کہ جب آپ کشمیر میں مداخلت کرنے جا رہے ہیں تو اس کا ردعمل سامنے آۓ گا اور وہ بینالاقوامی سرحدوں پر حملے کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے اس لیے ہم کم از کم اپنی سرحدوں پر فوج الرٹ رکھیں۔
کسی دانا کا قول ہے کہ جب امن قائم ہوجاۓ تو سب سے پہلے جھوٹ کو موت کے گھاٹ اتار دینا چاہیے۔ جنگ ستمبر کو ستاون برس گزر چکے ہیں اب ہمیں قوم کو اس جنگ کے بارے میں سچ ہی بتانا چاہیے کہ سچ کا سامنا کر کے ہی انسان اپنی غلطیوں کی اصلاح کر سکتا ہے جبکہ جھوٹ انسان کو فریب میں مبتلا رکھتا ہے اور وہ پھر کسی سانحے کی زد میں رہتا ہے جو کسی بھی وقت اسے آ دبوچتا ہے۔