قائد اعظم رنجیدہ ہوگئے. (قائد کے یومِ وفات پر)

خود احتسابی/شوکت علی

قائد اعظم رنجیدہ ہوگئے. (قائد کے یومِ وفات پر)

بھارتی فوج کے کمانڈر انچیف آکنلیک کے پرائیویٹ سیکرٹری میجر جنرل شاہد حامد نے ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ پاکستان کے قیام سے چند روز قبل انھوں نے قائد اعظم کو دہلی میں اپنے گھر پر ڈنر کی دعوت دی جس میں ہندو انگریز اور مسلمان سول ملٹری افسر اور ممتاز سیاست دان شریک تھے۔ قائد اعظم قدرتی طور پر بہت خوش تھے اور سب سے ہاتھ ملا رہے تھے۔ قائد اعظم آج باتوں کے موڈ میں تھے جو کہ حیران کن تھا کیونکہ قائد اعظم بہت کم بولتے تھے۔ آپ ہر اس شخص سے کچھ نہ کچھ کہتے جس سے آپکا تعارف کروایا جاتا تھا۔ آپ کے گرد کچھ افسران اکٹھے ہوگے جو آپ سے کچھ سوالات پوچھنا چاہتے تھے۔ آپ نے انھیں اپنے مخصوص انداز سے دھیرے سے، واضح اور پُر یقین انداز سے جواب دے رہے تھے۔ آپکو سننا انتہائی خوشگوار تھا خاص طور پر جب آپ اپنے کسی نقطہ کی وضاحت کر رہے ہوتے تھے۔ آپکی بات کا وہی مفہوم ہوتا جو آپ کہہ رہے ہوتے تھے یعنی ایسا کبھی نہیں ہوتا تھا کہ آپ کہہ کچھ رہے ہیں اور معنی و مفہوم اسکے برعکس ہو۔ آپ نے کبھی بھی اپنے آپ کو ویسا دکھانے کی کوشش نہیں کی جو آپ نہیں تھے۔ آپ الفاظ کو چبا چبا کر ادا نہیں کرتے تھے۔ آپ اس وقت یکدم سنجیدہ ہوگے جب کسی نے آپ سے پاکستان میں ترقیوں کے طریقہ کار کے متعلق سوال پوچھ لیا۔ شاہد حامد لکھتے ہیں کہ مجھے قائد اعظم کے چہرے سے صاف نظر آ رہا تھا کہ انھیں یہ سوال پسند نہیں آیا تھا۔ آپ نے سوال کا جواب دینے سے پہلے سوال کرنے والے افسر کو سر سے پاؤں تک دیکھا۔ اسکے بعد آپ نے جواب دیتے ہوۓ کہا۔
“ You Mussulmans, either you are up in the sky or down in the dumps. You cannot adopt a steady course. All the promotions will come in good time, but there will be no mad rush.”
“تم مسلمان یا تو آسمان میں اُڑتے ہو یا خاک میں اٹے ہوتے ہو۔ تم میانہ روی اختیار نہیں کرتے۔ تمام ترقیاں اپنے وقت پر ہونگی اور اس میں مضبوط الحواس قسم کی جلدی نہیں کی جاۓ گی۔”

اس کے بعد جنرل حامد مزید لکھتے ہیں کہ

“To another question he replied, “Pakistan’s elected Government will be that of civilians and who thinks contrary to democratic principles should not opt for Pakistan.”
“ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوۓ آپ نے فرمایا کہ پاکستان میں سول منتخب حکومت ہوا کرے گی اور جو کوئی بھی ان جمہوری اصولوں کے متضاد سوچتا ہے اسے پاکستان کا انتخاب نہیں کرنا چاہیے۔”

قائد اعظم غیر جمہوری سوچ رکھنے والے عناصر کو پاکستان کا حصہ نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ پاکستان فوج کے پہلے مسلمان کمانڈر انچیف کے طور پر جنرل افتخار کا نام منظور ہو چکا تھا لیکن وہ جنگ شاہی کے قریب ایک فضائی حادثے میں جاں بحق ہوگے اور بعد میں جنرل ایوب کا نام آیا جو ۱۹۴۷ء میں صرف کرنل تھے اور قائد اعظم نے اپنی زندگی میں جنرل ایوب کو پروموشن بھی نہیں دی تھی ۔ پھر محض چار سال کے عرصے میں ایوب خان کرنل سے جنرل کے عہدے تک پہنچے انھیں انتہائی کم عرصے میں یہ ترقی قائد اعظم کی وفات کے بعد ملی ۔ وہ ۱۹۵۱ میں افواجِ پاکستان کے پہلے کمانڈر انچیف کے عہدے پر براجمان ہوگے۔ اس طرح قائد اعظم کی پہلی بات کی نفی کر دی گئی کہ پاکستان میں ترقیاں اپنے وقت اور پاگل پن کے سے انداز میں نہیں کی جائیں گی۔ اس جلدی بازی کا خمیازہ پاکستان کو بھگتنا پڑا۔ ڈیلی ٹائمز، لاہور کی ۶مارچ ۲۰۱۰ کی اشاعت میں ایک مضمون “Field Marshal Ayub Khan- A Field Marshal who did little in War” میں اس بات کا اظہار کیا گیا کہ
“The promotion from colonel to general in less than four years for Ayub Khan had strategic consequences for Pakistan, as Ayub khan had neither attained the experience or the gravities needed to do justice to the office of the Commander-in-Chief of Pakistan Army.”
“ ایوب خان کی چار سال کے عرصے میں کرنل سے جنرل کے عہدے پر ترقی پاکستان کے لیے اسٹرٹیجک نتائج کا پیش خیمہ ثابت ہوئی کیونکہ ایوب خان کو نہ تو وہ تجربہ اور متانت حاصل ہوئی جو پاک فوج کے کمانڈر انچیف کے عہدے سے انصاف کرنے کے لیے ضروری تھا۔”
قائد اعظم پاکستان میں منتخب سول جمہوری حکومت کے قیام کے خواہشمند تھے۔ باباۓ قوم کی اس خواہش کی اس وقت نفی کر دی گئی جب انتہائی سرعت سے ترقی پانے والے ایک جرنیل نے ملک میں پہلے عام انتخابات کے انعقاد سے ایک سال پہلے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا اور اس مارشل لا کے نفاذ کے عمل میں جنرل شاھد حامد بھی ایک اہم حصہ تھے وہ جنرل جس نے قائد کی فکر کو اپنے کانوں سے سنا اور انھیں اسکا اظہار کرتے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ یہ سب دیکھ کر قائد کی روح ایک بار پھر ضرور عالم ارواح میں اداس ہوئی ہوگی اور شاید آج بھی ہو کہ اسکے بچے آج بھی کتنی تندہی سے اسکے پند و نصائح سے روگردانی کی روش پر گامزن ہیں جہاں منتخب حکومتوں کو ایسے چلتا کر دیا جاتا ہے جیسے کسی گھر کے ملازم کو ملازمت سے فارغ کر دیا جاتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں