یورپی کونسل کے صدر چارلس مشیل نے 21 اکتوبر جمعے کی صبح بتایا کہ یورپی یونین کے رہنماؤں نے ”ایسے اقدامات پر مزید کام کرنے پر اتفاق کر لیا ہے” جو توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا مقابلہ کرنے میں معاون ثابت ہوں گے۔
یورپی یونین میں شامل 27 ممالک کے رہنما اس مسئلے پر بات چیت کے لیے برسلز میں دو روزہ سربراہی اجلاس میں جمع ہوئے تھے۔ اس کا مقصد یورپ میں توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے تمام یورپی ملکوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کو دور کرنا تھا۔
اجلاس جمعہ کی صبح تک جاری رہا، کیونکہ کچھ ممالک کے درمیان اختلافات کو ختم نہیں کیا جا سکا۔
طویل گفتگو کے باوجود بھی، گیس کی قیمتوںکو طے کرنے پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔
تاہم بات چیت کے بعد یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیئر لائن نے کہا کہ سربراہی اجلاس میں ”توانائی کی قیمتوں کے موضوع پر کام جاری رکھنے کے لیے ایک ٹھوس روڈ میپ” تیار کر لیا گیا ہے۔
گیس کی قیمت متعین نہیں کی جا سکی
سربراہی اجلاس میں 27 میں سے کم از کم 15 ممالک نے گیس کی قیمتوں کو مشترکہ طور پر متعین کرنے پر زور دیا تاکہ زندگی گزارنے کی لاگت پر قابو پایا جا سکے۔
لیکن جرمنی اور اس کے روایتی ساتھی فرانس گیس کی قیمتوں کو طے کر دینے کی بحث کے مخالف تھے۔ برلن نے اس خوف سے اس طرح کے اقدام کو روکنے کی وکالت کی کہ اس سے گیس کی سپلائی ایشیائی منڈیوں کی طرف موڑ دی جائے گی اور توانائی کی بچت کے لیے جو مراعات فراہم کی جا رہی ہیں وہ بھی کم ہو سکتی ہیں۔
جرمن چانسلر اولاف شولس نے بات چیت کے بعد کہا کہ ”ہم نے بالآخر خود کو ایک ساتھ جمع کیا اور متحدہو گئے۔
” ان کا کہنا تھا، ”ہم نے قیمتوں سے متعلق جو پیمانے متعین کیے ہیں، اس کی بنیاد پر توانائی کے وزراء متفقہ طور پر ٹھوس تفصیلات پر کام کر سکتے ہیں۔”
جرمن چانسلر نے مزید کہا کہ توانائی کے وزراء منگل کے روز لکسمبرگ میں ملاقات کرنے والے ہیں اور اگر اس ملاقات میں بھی وہ کسی حتمی معاہدے پر نہیں پہنچ سکے، تو یورپی یونین کے رہنما دوبارہ ملاقات کر سکتے ہیں۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کا کہنا تھا کہ ہمارا کردار اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ یورپی یونین متحدرہے اور جرمنی بھی اس کا حصہ ہو۔ یہ جرمنی یا یورپ کے لیے اچھی بات نہیں ہے کہ وہ خود کو الگ تھلگ کر لے۔”
ایک اور رہنما جنہوں نے گیس کی قیمت طے کرنے کی مخالفت کی، وہ ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان تھے۔ اوربان یورپی یونین کے واحد رہنما ہیں، جنہوں نے ابھی تک روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی حکومت کے ساتھ گرم جوش تعلقات برقرار رکھے ہیں۔
انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ”گیس کی قیمت کی حد مقرر کرنا بالکل ایسا ہی ہے کہ آپ کسی بار میں جائیں اور بارٹینڈر سے کہیں کہ آپ اپنے بیئر کی نصف قیمت ہی ادا کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔”
توانائی کا روڈ میپ تیار ہے
یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں رہنماؤں کے درمیان اختلافات اتنے زبردست تھے کہ توانائی کے منصوبے پر مزید بحث کرنے پر رضامندی ہی اپنے آپ میں ایک کامیابی قرار پائی۔
یورپی کمیشن نے فی الوقت یہ تجویز پیش کی ہے کہ ممالک اپنی گیس کی خریداری کو ایک دوسرے سے پول کریں۔ اس نے ایک ایسا سمجھوتہ بھی پیش کیا جو قیمتوں میں اصلاح کے طریقہ کار کو غیر معمولی حالات میں شروع کرنے کی اجازت دے گا۔
بیلجیئم کے وزیر اعظم الیگزینڈر ڈی کرو نے کہا کہ آگے ابھی بہت کام ہے۔ ”ہم خود کو ایسے نامعلوم علاقے میں دھکیل رہے ہیں، جہاں ہمیں ابھی تک کوئی تجربہ نہیں ہے۔