حقیقی آزادی کے نام پرلاہور کے لبرٹی چوک سے شروع ہونے والے اس لانگ مارچ میں شرکت کے لیے ملک کے مختلف حصوں سے پی ٹی آئی کے مرکزی لیڈرز بھی لاہور پہنچ چکے ہیں۔ اس لانگ مارچ کے آغاز کے لیے لبرٹی چوک کو پاکستان تحریک انصاف کے پرچموں، بینرز اور ہورڈنگز سے سجایا گیا ہے۔ اس وقت لبرٹی چوک بلند آواز میں لگائے گئے پی ٹی آئی کے ترانوں سے گونج رہا ہے۔
لوگ لبرٹی چوک کے پاس جمع ہو رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے حامی نوجوان سیلفیاں بنانے میں مصروف ہیں۔
اس لانگ مارچ میں استعمال ہونے والا کنٹینر بھی لبرٹی چوک میں پہنچا دیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے پرچم والے رنگوں سے سجائے جانے والے اس کنٹینر کو خاص طور پر سیاسی احتجاج کے لیے تیار کیا گیا ہے۔
جمعرات کی شام پی ٹی آئی کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد نے اس کنٹینر پر خواتین کارکنوں کے ساتھ سوار ہو کر لانگ مارچ کے مجوزہ راستوں پر ”موک یعنی فرضی لانگ مارچ‘‘ کرکے راستے میں آنے والی سڑکوں اور اُوورہیڈ پلوں سے کنٹینر گزار کر صورتحال کا جائزہ لیا۔
عمران خان نے جمعے کے روز ایک مصروف دن گزارا۔ انہوں نے لانگ مارچ کے حوالے سے کئی میٹنگز کی صدارت کی، وہ سوشل میڈیا کے کارکنوں اور وکلا سے ملے، انہوں نے ارشد شریف کی غائبانہ نماز جنازہ میں بھی شرکت کی اور لاہور میں لبرٹی چوک میں لانگ مارچ کے انتظامات بھی دیکھے۔
کیا اسلام آباد کو ایک اور لانگ مارچ کا سامنا ہو گا؟
پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق عمران خان اس لانگ مارچ کے ساتھ سفر کرتے ہوئے لاہور سے اسلام آباد تک کا قریب تین سو کلومیٹر کا فاصلہ آٹھ دنوں میں طے کریں گے۔
جمعے کے روز روانہ ہونے والا یہ لانگ مارچ چار نومبر یعنی اگلے جمعے کے روز اسلام آباد کے قریب پہنچے گا۔ لانگ مارچ کے شرکا مختلف انتخابی حلقوں سے گذریں گے۔ پہلے دن کے شیڈول کے مطابق یہ لانگ مارچ لبرٹی چوک سے شروع ہو کر شاہدرہ کے قریب آزادی چوک پہنچے گا۔ وہاں پر ایک بڑے جلسے کے بعد پہلے دن کا کام ختم ہو جائے گا اور اگلے دن پھر شرکا شاہدرہ سے اپنے سفر کا آغاز کریں گے۔
پی ٹی آئی کی رہنما سعدیہ سہیل رانا کے مطابق یہ کارواں گوجرانوالا، سیالکوٹ، گجرات، جہلم ، گوجر خان سمیت مختلف شہروں سے ہوتا ہوا اگلے جمعے کو پہلے راولپنڈی پھر اسلام آباد پہنچے گا۔ ان کے بقول مختلف شہروں میں اس قافلے میں نئے لوگ شامل ہوتے رہیں گے اور آخری روز سارے شہروں سے لوگ براہ راست اسلام آباد پہنچیں گے۔
لانگ مارچ کے شرکا کے استقبال کے لیے راستے میں جگہ جگہ استقبالیہ کیمپ لگائے جا رہے ہیں اور شرکا کے کھانے پینے اور آرام کے لیے مقامی طور پر انتظامات کیے گئے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف نے اس لانگ مارچ کے لیے قومی اور صوبائی سیٹوں کے ٹکٹ حاصل کرنے کے خواہش مند امیدواروں کولانگ مارچکے لیے بندے لانے کے ٹارگٹ دیے ہیں۔ لاہور سے قومی اسمبلی کی سیٹ پر پی ٹی آئی کے ایک امیدوار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ قومی اسمبلی کے امیدوار کوپانچ سو اور صوبائی اسمبلی کے امیدوار کو پانچ سو افراد لانے کے لیے پابند کیا گیا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما اور وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے بتایا کہ احتجاجی لانگ مارچ کے شرکا کو وفاقی دارالحکومت میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ان کے مطابق ضرورت پڑنے پر رینجرز اور فوج کے جوانوں سے بھی مدد لی جائے گی۔ پاکستان تحریک انصاف کے ایک رہنما فیصل واڈا اس لانگ مارچ میں حالات خراب ہونے اور خونی مناظر کا خدشہ ظاہر کر چکے ہیں۔
پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہونے کی وجہ سے اس بات کا امکان ہے کہ لانگ مارچ کے شرکا با آسانی اسلام آباد تک پہنچ جائیں گے لیکن ابھی تک یہ یہ واضح نہیں ہے کہ لانگ مارچ کے شرکا اسلام آباد میں داخل ہو سکیں گے یا نہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق سب سے مشکل میں اس وقت پنجاب کے چیف منسٹر چوہدری پرویز الٰہی ہیں جو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ قریبی تعلق کا حامل گردانے جاتے ہیں دوسری طرف انہیں عمران خان نے اپنی پارٹی کی حمایت سے وزیراعلی بنوایا ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ پرویز الٰہی اس لانگ مارچ کو سہولتیں فراہم کرکے عمران خان کو خوش کرتے ہیں یا اس سے گریز کرکے پرانے دوستوں کا ساتھ نبھاتے ہیں۔
سینیئر تجزیہ نگار برگیڈئیر(ر) فاروق حمید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عمران خان اس لانگ مارچ کے ذریعے حکومت پر دباؤ بڑھا کر جلد الیکشن کی تاریخ لینا چاہتے ہیں۔ ان کا مقصد بھی حکومت گرانا نہیں ہے۔
ان کے خیال میں ارشد شریف کی وفات کے بعد عمران خانکے حق میں اٹھنے والی لہر نے ان کو مزید مضبوط کر دیا ہے بہتر ہوگا کہ حکومت ان کے ساتھ بات چیت کا آغاز کرے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ جمعے کے روز آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آر کے سربراہان کی طرف سے کی جانے والی پریس کانفرنس کے بعد حالات کافی بدل گئے ہیں اور لگتا یہی ہے کہ اب پس پردہ کوئی بات چیت باقی نہیں رہی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ پی ٹی آئی کے کئی لیڈر اور عمران کے بعض حمایتی وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں۔ لیکن وہ نہیں سمجھتے کہ آنے والے دنوں میں فیصل واڈا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شاہ محمود قریشی یا شیخ رشید وغیرہ سمیت پی ٹی آئی کے کچھ لیڈر عمران خان کا ساتھ چھوڑ سکتے ہیں۔ انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ سانحہ کارساز کی طرح پاکستان کی دشمن قوتیں یا دہشت گرد عناصر کوئی شرارت کر سکتے ہیں ان سے خبردار رہنے اور حفاظتی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔