کھاریاں ( سلیم اختر بٹ ) انڈیا کے شہر گجرات میں پل ٹوٹنے کا واقعہ: ہلاکتیں 141 ہو گئیں، تحقیقات میں چونکانے والے حقائق کا انکشاف
انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے گذشتہ روز اپنی آبائی ریاست گجرات کے شہر موربی کا دورہ کیا تاکہ وہ اتوار کو گرنے والے پل کا خود جائزہ لے سکیں۔
اس حادثے میں ابھی تک 135 افراد کی لاش نکالی جا چکی ہے جب کہ ابھی بھی بہت سے لاپتہ افراد کی لاش کی تلاش جاری ہے۔گجرات کے وزیر داخلہ ہرش سنگھ سانگھوی نے کہا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد 141 ہو گئی ہے۔بہت سے متاثرین تیز رفتار پانی میں بہہ گئے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر خواتین، بچے اور بوڑھے شامل ہیں۔ مسٹر مودی کے منگل کو جائے وقوعہ کا دورہ کرنے کے بعد ان کے دفتر نے کہا کہ انھوں نے ‘تفصیلی اور وسیع انکوائری‘ کی ضرورت پر زور دیا اور مزید کہا کہ ‘انکوائری سے حاصل ہونے والی اہم معلومات کو جلد از جلد لاگو کیا جانا چاہیے۔‘ زخمی مریضوں کے لیے نئے گدے اور صاف بستر کی چادریں لائی جا رہی ہیں۔’
نھوں نے کہا کہ ‘شہر کے لوگوں کے لیے، زندگی معمول پر آ رہی ہے، دکانیں دوبارہ کھل رہی ہیں اور سڑکوں پر ٹریفک ہے۔ لیکن جھولتو پل پر یہ سب خاموش ہے، جو کہ شہر کے سب سے نمایاں سیاحتی مقامات میں سے ایک اور اتوار کے سانحے کا منظر ہے۔‘ وہاں صرف امدادی کشتیوں کے تیز انجن کی آوازیں سنائی دیتی ہیں جو کہ دریا کے پانیوں کو چیرتے ہوئے مزید لاشوں کی تلاش میں ہیں۔پل ٹوٹنے کے فورا بعد کا منظر جس میں لوگوں کو پل سے لٹکے دیکھا جا سکتا ہے
چونکا دینے والے حقائق دریں اثنا گجرات کے موربی میں سسپینشن برج یعنی جھولنے والے پل کے گرنے کے معاملے کی عدالت میں سماعت کے دوران کچھ چونکا دینے والے حقائق سامنے آئے ہیں۔شہر کی پہچان کہلانے والے اس پل کو کئی سالوں بعد عوام کے لیے کھول دیا گیا تھا۔دریائے ماچھو پر تعمیر یہ پل مقامی لوگوں کے لیے ایک پرکشش سیاحتی مقام تھا۔ اس دن بھی آس پاس کے علاقوں سے بہت سے لوگ اسے دیکھنے کے لیے جمع تھے۔اس کیس کے استغاثہ نے عدالت کو فرانزک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پل کا فرش بدل دیا گیا تھا، لیکن اسے سنبھالنے والی کیبلز(تاریں) نہیں بدلی گئی تھیں۔
اس معاملے میں نو افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں پل کی دیکھ بھال کرنے والی کمپنی کے ملازمین شامل ہیں۔ اس انکشاف کے بعد عدالت نے کمپنی کے لیے کام کرنے والے چار ملزمان کو اگلے ہفتے تک پولیس کی تحویل میں بھیج دیا جن میں کمپنی کے دو منیجر اور سب کنٹریکٹرز شامل ہیں۔سرکاری وکیل ایچ ایس پنچال نے کہا کہ چیف جوڈیشل مجسٹریٹ ایم جے خان نے باقی پانچ ملزمان کو عدالتی حراست میں بھیج دیا ہے۔ ان میں ٹکٹ بکنگ کلرک اور سکیورٹی گارڈز شامل ہیں۔جنا حادثے میں مرنے والوں کی میتوں میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی نئے فرش کے سبب پل ٹوٹا’فرانزک سائنس لیب کی رپورٹ کے حوالہ سے سرکاری وکیل پنچال نے عدالت کو پل کے گرنے کی وجہ بتائی ہےانھوں نے کہا کہ فرانزک ماہرین کے مطابق پل نئی فلورنگ کا وزن برداشت نہیں کرسکا اور اس کی تاریں ٹوٹ گئیں۔پنچال نے عدالت کے باہر نامہ نگاروں سے کہا: ‘اگرچہ فرانزک رپورٹ بند لفافے میں عدالت میں جمع کرائی گئی ہے، لیکن ریمانڈ کی درخواست میں لکھا گیا ہے کہ پل کے کیبلز کو تبدیل نہیں کیا گیا تھا، صرف فرش بدلا گیا ہے۔
‘فرش چار پرتوں والی ایلومینیم کی چادروں سے بنا تھا۔ اس کا وزن اتنا بڑھ گیا کہ پل کو تھامنے والی کیبل اس کا وزن برداشت نہ کر سکی اور پل گر گیا۔’عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ جن ٹھیکیداروں کو مرمت کا کام دیا گیا تھا وہ اس کام کے اہل نہیں تھے۔گجرا برسوں سے بند پُل کو تزئین و آرائش کے بعد کھولا گیا تھا
راجکوٹ سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ موہن بھائی کلیان جی کنڈاریا نے بی بی سی کے نامہ نگار دلنواز پاشا کو بتایا کہ ’زخمیوں کی تعداد اب بھی کم ہے لیکن پانی میں ڈوبے ہوئے لوگوں کی تلاش کا کام جاری ہے۔‘بی جے پی رکن پارلیمنٹ نے خدشہ ظاہر کیا کہ مرنے والوں میں زیادہ تر بچے ہو سکتے ہیں۔
کنڈاریا کا کہنا ہے کہ 15 منٹ میں 50 سے زیادہ ایمبولینسیں موقع پر پہنچ گئیں۔وربی کے ضلع کلکٹر کا کہنا ہے کہ رات تک 170 جور لوگوں کو بچایا جا چکا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ پل پر زیادہ لوگ موجود تھے جس کی وجہ سے پل ٹوٹ گیا، اب پل پر جانے کے لیے کتنے ٹکٹ کٹے ہیں اس کی معلومات جمع کی جا رہی ہیں۔‘ اطلاعات کے مطابق جس وقت پل گرا اس وقت اس پر 400 کے قریب افراد موجود تھے۔راجکوٹ ضلع مجسٹریٹ دفتر کے آفیشل ٹویٹر ہینڈل سے بتایا گیا کہ موربی پل کے جائے حادثہ کے لیے راجکوٹ ضلع سے 22 ایمبولینس، 7 فائر بریگیڈ اور چھ کشتیاں بھیجی گئی ہیں۔یہ پل برسوں سے بند تھا۔ اسے حال ہی میں تزئین و آرائش کے بعد عوام کے لیے دوبارہ کھول دیا گیا تھا۔یہ نیا پل گجراتی نئے سال پر دیوالی کے بعد کھولا گیا تھا اور دیوالی کی تعطیلات اور اتوار کی وجہ سے پل پر لوگوں کی کافی بھیڑ تھی۔
تاہم یہ صدیوں پرانا پل گرنے کی وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی ہے۔ پل گرنے کی وجوہات جاننے کے لیے پانچ رکنی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے۔
انتظامیہ فی الحال امدادی کاموں میں مصروف ہے۔ این ڈی آر ایف کے ڈائریکٹر جنرل اتل کروال نے خبر رساں ایجنسی اے این آئی کو بتایا کہ این ڈی آر ایف کی تین ٹیمیں موقع پر روانہ کی گئی ہیں۔ دو ٹیمیں گاندھی نگر اور ایک بڑودہ سے بھیجی گئی ہیں۔ریاست کے وزیر اعلیٰ بھوپیندر پٹیل نے ٹویٹ کیا، ’میں موربی میں پل کے گرنے سے غمزدہ ہوں۔ حکام کی طرف سے راحت اور بچاؤ کی کارروائیاں جاری ہیں۔ میں نے زخمیوں کے فوری علاج کے انتظامات کرنے کی ہدایات دی ہیں۔ میں مسلسل فکر مند ہوں۔ یہ ضلع میں ہے۔ میں انتظامیہ سے رابطے میں ہوں۔‘
گجرات کے وزیر اعلی بھوپیندر پٹیل نے حادثے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کے لیے 4 لاکھ روپے اور زخمیوں کے لیے 50 ہزار روپے کی امداد کا اعلان کیا ہے۔موربی میں دریائے ماچھو پر بنایا گیا یہ جھولتا پل جدید یورپی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا ہے جس کا مقصد موربی کو ایک منفرد شناخت دینا ہے۔
موربی شہر کی سرکاری ویب سائٹ پر دی گئی معلومات میں اس پل کو انجینئرنگ کا معجزہ بتایا گیا ہے۔
یہ پل 1.25 میٹر چوڑا اور 233 میٹر لمبا تھا اور دریائے ماچھو پر واقع دربار گڑھ پیلس اور لکھدھیر جی انجینئرنگ کالج کو جوڑتا تھا۔وہاں لوگوں نے کیا دیکھا یہ حادثہ شام چھ بجے کے قریب پیش آیا جبکہ بی بی سی کے معاون صحافی راکیش امبالیا شام ساڑھے چھ بجے جائے حادثہ پر پہنچ گئے تھے۔امبالیا کے مطابق حادثے کے فوراً بعد ایمبولینس اور انتظامی اہلکار جائے حادثہ پر پہنچ گئے۔ پانی میں ڈوبنے والے افراد کو بچانے میں مقامی لوگوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔امبالیا نے بتایا کہ جب میں وہاں پہنچا تو چاروں طرف چیخ و پکار تھی، یہ بہت ہی خوفناک منظر تھا۔ کچھ لوگ پل کی ریلنگ سے لٹک رہے تھے جبکہ کچھ پل کے ڈوبے ہوئے حصے سے نکل کر پل پر چڑھ کر اپنی جان بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔ بہت سے لوگ ڈوب رہے تھے، بچاؤ بچاؤ کا شور تھا۔‘امبالیا کا کہنا ہے کہ ’جائے حادثہ سے بھاگنے والے ایک شخص نے بتایا، میں کسی طرح بچ گیا ہوں، بہت سے لوگ پھنسے ہوئے ہیں، انھیں بچا لو۔‘
حادثے کے فوری بعد آس پاس کے لوگ بھی مدد کے لیے پہنچ گئے۔ جہاں پل ٹوٹا تھا وہاں سے تھوڑے فاصلے پر رمیش بھائی جلیریا رہتے ہیں۔ صحافی راکیش امبالیا سے بات کرتے ہوئے رمیش بھائی نے کہا ’میں قریب ہی رہتا ہوں، شام چھ بجے کے قریب مجھے پتا چلا کہ حادثہ ہو گیا ہے، تو میں فوراً رسی لے کر پہنچا اور رسی کی مدد سے تقریبا پندرہ لاشیں باہر نکالیں۔‘
اس واقعے کے بعد کی صورتحال بیان کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’جب میں آیا تو ٹوٹے ہوئے پل پر پچاس سے ساٹھ لوگ لٹکے ہوئے تھے۔‘
اس کے بعد جیسے جیسے ہمیں لاشیں ملتی گئيں، ہانھیں نکالتے گئے، ان لاشوں میں تین چھوٹے بچوں کی لاشیں بھی تھیں۔‘
اس حادثے کے ایک عینی شاہد سبھاش بھائی کا کہنا ہے کہ ’کام ختم کرنے کے بعد میں اور میرا دوست پل کے پاس بیٹھے تھے کہ پل ٹوٹنے کی تیز آواز آئی اور ہم اس طرف بھاگے اور لوگوں کو بچانا شروع کیا۔‘
’کچھ لوگ تیر کر باہر نکل رہے تھے، کچھ لوگ ڈوب رہے تھے۔ ہم نے سب سے پہلے بچوں کو نکالنا شروع کیا، اس کے بعد ہم نے پائپ لیا اور پائپ کی مدد سے بڑے لوگوں کو بچانے کی کوشش کی۔ ہم نے آٹھ نو لوگوں کو پانی سے باہر نکالا جن میں دو لاشیں بھی تھیں۔‘
صدر اور وزیر اعظم کا اظہار افسوس صدر دروپدی مرمو نے ٹویٹ کرکے اس واقعے پرغم کا اظہار کیا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے ٹویٹ کیا ہے کہ انھوں نے اس معاملے پر گجرات کے وزیر اعلی بھوپیندر پٹیل اور دیگر حکام سے بات کی ہے۔
انھوں نے لکھا کہ ’امدادی کاموں کے لیے ٹیمیں بھیجنے کا کہا گیا ہے۔ وہ صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ حکام کو متاثرین کو ہر ممکن مدد فراہم کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔‘ وزیر اعظم ریلیف فنڈ سے مرنے والوں کے لواحقین کو 2 لاکھ روپے اور زخمیوں کو 50 ہزار روپے کی امدادی رقم دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔وزیر داخلہ امیت شاہ نے ٹویٹ کیا کہ ’موربی میں ہونے والے حادثے سے انتہائی غمزدہ ہوں۔ میں نے اس سلسلے میں گجرات کے وزیر مملکت برائے داخلہ ہرش سنگھوی اور دیگر حکام سے بات کی ہے۔ مقامی انتظامیہ پوری تیاری کے ساتھ امدادی کاموں میں مصروف ہے، این ڈی آر ایف بھی پہنچ رہی ہے۔ انتظامیہ کو زخمیوں کو فوری علاج فراہم کرنے کی ہدایت کی گی ہے۔