وفاقی وزیر منصوبہ بندی ترقی و اصلاحات احسن اقبال نے کہا ہے کہ ڈالر آئیں گے تو ملک چلے گا، ہمیں اپنی برآمدات بڑھانا ہوں گی، یہاںترقی کو راستے میں روکا گیاجبکہ بنگلا دیش اور بھارت نے ایسا نہیں کیا، اب بھی وقت ہے کہ سیاستدان مل بیٹھ کر دانش مندی سے پارلیمنٹ میں فیصلے کریں،ہمارے گزشتہ دور میں سی پیک دنیا میں پاکستان کا برانڈ امیج بن گیا تھا ،یہاں کوئی بلند وبالا دعوے کرے مگر یکم اپریل 2022 کو آخری ترقیاتی قسط دینے کا بجٹ نہیں تھا ،چینلز پر شرط لگتی رہی کہ ملک سری لنکا بننے جا رہا ہے ،ہمیں سخت اور غیر معمولی فیصلے کرنے پڑے ،ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ہماری سوچ میں فرق ہوسکتا ہے مگر برے نہیں ہوسکتے ، آج اختلاف کو نفرت میں تبدیل کیا جا رہا ہے جس سے ہمیں دشمن کی ضرورت نہیں ،نوجوانون سے اپیل ہے کہ وہ اختلاف رائے رکھیں مگر نفرت کرنے سے بچیں،ہم نے بھی ترقی یافتہ ممالک کی طرح پالیسیاں بنائیں لیکن ہم سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ سکے ،ہماری اولین ترجیح ہے کہ پاکستان کی برآمدات بڑھانی ہیں ۔
نجی ٹی یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ ہمارا صرف ایک مسئلہ ہے سیاسی عدم استحکام ہے ، ہمارے ہاں پالیسیوں کا تسلسل نہیں رہا۔دیگر ممالک ہم سے آگے نکل گئے، بنگلا دیش، انڈونیشیاء ، ملائیشیا اس کی مثال ہیں، انہوںنے کہا کہ یہاں اختلافِ رائے کو نفرت میں بدل دیا گیاہے، معاشرے کو پولرائزڈ کر دیا گیا جبکہ ملک کو استحکام کی اشد ضرورت ہے۔
معاشرے کو ڈی پولرائزڈ کرنا ہو گا، یہاں استحکام، برداشت، صبر اور ترقی کا سبق پروان چڑھانا ہو گا۔یہ سوچنا ہو گا کہ نفرت سے معاشرے نہیں چل سکتے، ہمیں اشد ضرورت ہے کہ ایک دوسرے پر تنقید میں احترام سامنے رکھیں۔معاشی ماہرین، تاجروں، صنعتکاروں سے اپیل ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کی طرف آئیں، ہمیں نوجوان نسل کو اچھا مستقبل دینے کی طرف جانا ہو گا، ایک وقت تھا جب پاکستان اوپر جا رہا تھا، لیکن پھر بار بار اس راستے کو روکا گیا۔
ہم نے ترقی کو راستے میں روکا جبکہ بنگلا دیش اور بھارت نے ایسا نہیں کیا، اب بھی وقت ہے کہ سیاستدان مل بیٹھ کر دانش مندی سے پارلیمنٹ میں فیصلے کریں۔احسن اقبال نے کہا کہ اب حالات بدل گئے ہیں اور ہمیں دوسرے ملکوں سے قرضے مانگنے پڑ رہے ہیں، پاکستان ڈیفالٹ کرنے لگا تھا لیکن ہم نے اسے سنبھال لیا۔شہر تیزی کے ساتھ پھیل رہے ہیں، سعودی عرب بہت بڑا شہر نیوم سٹی آباد کر رہا ہے، دنیا کے بڑے بڑے پراجیکٹس میں ہم کیوں نہیں جا سکتی ،ہمارے پاس بہترین آرکیٹیکٹس ہیں، نوجوان نسل میں صلاحیت موجود ہے، کنسٹرکشن انڈسٹری نئی ٹیکنالوجی سے استفادہ کرے۔
احسن اقبال نے کہا کہ پوری دنیا میں مسلمہ حقیقت ہے کہ ہائر ایجوکیشن کے ذریعے ہم نوجوانوں کو اکانومی اور سوسائٹی کا بہترپروڈکٹو ممبر بنا سکتے ہیں،آمدنی اورکنٹری بیوشن میں اضافہ ہوتا ہے، یونیورسٹیرز وہ تجربہ گاہیں فیکٹریاں ہیں جہاں ذہن سازی ،کردار سازی اور سکلر ڈویلپمنٹ ہوتی ہے یہ کسی بھی ملک کے مستقبل پر براہ رات اثر ڈالتی ہے ۔
اج ویلیو نالج کیپٹلہے ، یونیورسٹیز ہمیںنئے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے ایسی ریسرچ اورانو ویشن کر کے دیں جس سے مسائل حل ہوں، یہ ملک کے مسائل کے حل کے لئے وہ سپیسز ہیں کہ انوویشن کے ذریعے مسائل کے قابل حل نکال سکتے ہیں،ہمارے جیسے ملک کواپلائیڈ ریسرچ کی ضرورت ہے ، روپیہ ریسرچ میں جائے تو مسائل کو حل کرنے کا ذریعہ ہو۔انہوں نے کہاکہ ہم کنسٹرکشن انڈسٹری کا جائزہ لیتے ہیں تو پوری دنیا میں معیشت کا اہم جزو ہے ، پاکستان میں بھی اس کا اہم کردار ہے ،دو سے تین دہائیوں میںکنسٹرکشن انڈسٹری میں ٹیکنالوجی اور انوویشن نے گہرا اثر چھوڑا ہے ،تھری ڈی پرنٹنگ اورنئے میٹریلز آرہے ہیں ، کنسٹرکشن کی ویٹ سے ڈرائی کنسٹرکشن پر منتقل ہو چکی ہے ،چین میں بیس بیس منزلہ عمارتیں مہینوں میں کھڑی ہو جاتی ہیں۔
ہمارے پاس وسائل ہیں لیکن ضائع ہو جاتے ہیں اور پوری طرح بروئے کار نہیں لائے جا سکتے ۔انہوںنے کہا کہ ملک کی جو بیلنس شیٹ ہے اگر کسی نجی ادارے میں ہو تو اس کے سی ای او کو شاید رات کو نیند نہ آئے ، آج 75سالوں کے بعد یہ اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے خوشی نہیں ہو رہی ۔ہم پاکستان پچاسویں سالگرہ منا رہا تھا میں اس وقت حکومت میں پہلی بارآیا اور اس وقت وزارت منصوبہ بندی میں آیا ۔
جب ہم ملائیشیاء کی ترقی دیکھنے اور ان سے پوچھنے گئے تو انہوں نے کہا کہ 60کی دہائی میں آپ ہمارے رول ماڈل تھے ہم نے آپ کودیکھ کر ترقی کی ہے ہم آپ سے کیا شیئر کر سکتے ہیں، ہم نے واپس آ کر اپنے ملک کے لوگوںسے بات چیت کی پانچ ہزار ماہرین سے مل کر وژن 2010ء بنایا ، 1998ء میں وژن دیا کہ بارہ سالوں میں ملک کو اپر مڈل انکم پر کیسے لایا جائے لیکن دو سال بعد مارشل لاء آ گیا اور وژن کو باہر پھینک دیا گیا ، 2013ء حکومت میں آئے تو میں نے دوبارہ اس پر کا کیا اوروژن دیا جس کے تحت ہم نے ٹاپ 25معیشتوں میں شامل ہونا تھا، اس وقت کے بقراط اور سقراط بیٹھے اور انہوں نے ہمارا مذاق اڑایا کہ آپ ہمیں شیخ چلی کے خواب دکھا رہے ہیں ،جب ہم نے محنت کی ، خدا کی ذات نے سی پیک جیسا منصوبہ ہمیںبونس کے طور پر دیا، پاکستان اس پر چلتا رہا اور عالمی ادارے کہہ رہے تھے کہ اگر یہ تسلسل جاری رہا تو پاکستان 20230میں ٹاپ 25ممالک والی معیشتوں میں شامل ہو جائے گا،2017 اور2018 مختلف ممالک کے سفیر یہ سوال کرتے تھے کہ ہم سی پیک کے اندر کس طرح پاکستان کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں، سی پیک دنیا میں پاکستان کا برانڈ امیج بن گیا تھا ۔
انہوںنے کہا کہ یہاں کوئی بلند وبالا دعوے کرے مگر یکم اپریل 2022 کو آخری ترقیاتی قسط دینے کا بجٹ نہیں تھا چینلز پر شرط لگتی رہی کہ ملک سری لنکا بننے جا رہا ہے ،ہمیں سخت اور غیر معمولی فیصلے کرنے پڑے ،ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ہماری سوچ میں فرق ہوسکتا ہے مگر برے نہیں ہوسکتے ، آج اختلاف کو نفرت میں تبدیل کیا جا رہا ہے جس سے ہمیں دشمن کی ضرورت نہیں ،نوجوانون سے اپیل ہے کہ وہ اختلاف رائے رکھیںمگر نفرت کرنے سے ،بچیںہم نے بھی ترقی یافتہ ممالک کی طرح پالیسیاں بنائی لیکن ہم سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ سکے ۔