ستر کی دہائی میں پاکستان کی چھوٹی اور بڑی سکرین پر ایک چہرہ نمودار ہوا، جس نے اپنی خوبصورت پرفارمنس، عمدہ ڈائیلاگ ڈیلیوری اور دل کش آواز کے ذریعے ناظرین اور فلم بینوں کے دلوں میں نہ صرف جگہ بنا لی، بلکہ سکرین پر موجود ایسی قابل اعتماد شناخت کی صورت اختیار کر لی، جس کی موجودگی، سب کے لئے قابل توجہ اور باعث کشش ہو سکتی ہو۔
منفی کرداروں میں پہچان حاصل کرنے کے ساتھ، اس فنکار کی یہ مثبت خوبی بھی زیادہ دیر پوشیدہ نہ رہ سکی کہ یہ باصلاحیت فنکار صرف ویلن ہی نہیں، ایک ہمہ جہت خوبیوں کا مالک، ہر فن مولا اداکار ہے، جو جہاں، جس کردار میں منتخب ہو، اس میں ڈھلنے اور اسے حقیقت کے رنگ میں ڈھالنے کا گر جانتا ہے اور یہ وہ صفت ہے جو کم فنکاروں کا مقدر ہوتی ہے۔
انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ
اشفاق احمد کے تحریر کردہ اچے برج لاہور دے اور منو بھائی کے لکھے جزیرہ سے لوگوں کی توجہ اور محبت اور ناقدین کی تائید حاصل کرنے والے اس فنکار نے اپنی جاندار پرفارمنس سے کتنے ہی کرداروں کو زندہ جاوید بنا دیا۔ لوگوں کے ذہنوں اور ان کی یاداشت میں محفوظ، شاندار کردار نگاری کی یہ فہرست اس قدر طویل ہے کہ ان کی یاد دہراتے ہوئے متاثر کن فن پاروں کی ایک گیلری سی کھلتی دکھائی دیتی ہے۔
بلوچ تاریخ کے مشہور کردار چاکر اعظم کو عصر حاضر میں بھر پور طریقے سے متعارف کرانے والا اداکار کون تھا جس کی ستائش کے لئے بلوچستان کے ممتاز شاعر عطا شاد نے کہا
” چاکر ہمارے ہاں ایک ایسا سمبل ہے کہ اس کے کردار کی خرابیاں اور خوبیاں ہونے کے باوجود، آج بھی قبائلی نظام کی وہ ایک بڑی شخصیت ہے۔ اس طرح کے کردار جس کے ساتھ لوگوں کو ایک عقیدت ہو اور اس کی پرفارمنس ( کے لئے ضروری ہے کہ ) اس معیار پر ہو کہ لوگ کہیں یہ چاکر اعظم ہے“
اشفاق احمد کے متعارف کردہ اور ان ہی کی لکھی سیریز اچے برج لاہور دے کے ایک کھیل کارواں سرائے، میں انیس بیس سالہ اداکار کو پچاس پچپن سالہ کردار ادا کرنے پر ممتاز نقاد اور ادیب صفدر میر نے یوں سراہا کہ
ڈرامہ سیریل جزیرہ کے خالق منو بھائی کہتے ہیں
” اس سیریل میں انھوں نے جو کیرکٹر کیا تھا وہ ایک مشکل کیرکٹر تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ جب انھیں یہ دیا گیا تو کافی پریشان ہوئے کہ اس میں کوئی خاص بات نہیں ہے۔ یہ ایک نارمل کیرکٹر ہے۔ ( میری نظر میں ) سب سے مشکل ایک نارمل کیرکٹر ہوتا ہے۔ اسے ابنارملی، نارمل بنانا ہوتا ہے، تو ( اس کی ادائیگی کا مرحلہ ) کتنا مشکل ہو گا۔ انھوں نے اس کو ڈیویلپ کیا“
انھیں یہ بھی یاد ہے کہ
لاہور میں تھیٹر کی دنیا میں انقلاب لانے کا انوکھا خیال کس کے ذہن میں آیا اور ٹیلی وژن اور فلم کی طرح اپنی تخلیقی کاوشوں سے، تھیٹر پر نئے رجحانات پیش کر کے، ( نئے فنکاروں کو متعارف کرانے کے ساتھ ) ، نئے موضوعات کی تلاش کر کے، کس نے اپنا سکہ جمایا اور کامیابیوں کی نئی تاریخ رقم کی۔
مگر کیا وہ یہ جانتے ہیں کہ وہ افضال احمد جس کی فنکارانہ قدوقامت، پرفارمنس کا اعلی ریکارڈ اور ہمہ جہت پیشہ ورانہ شخصیت، کسی بھی قومی اعزاز کیلے لئے باعث افتخار ہو سکتی ہے،
وہ آج، زندگی کے کم وبیش 30 سال پرفارمنس آرٹس کو وقف کر دینے کے باوجود،
ان گنت اردو اور پنجابی فلموں میں خاص و عام سے داد وصول کرنے کے باوجود،
بے شمار ٹی وی ڈراموں سیریلز اور سیریز کے کرداروں کو زندگی بخشنے کے باوجود،
نئی جہت کے تھیٹر ( تماثیل ) کی بنیاد رکھنے کے باوجود،
پاکستانی تھیٹر کی تاریخ کے سب سے طویل عرصہ چلنے والے کھیل (جنم جنم کی میلی چادر ) کی بے مثال ریکارڈ توڑ کامیابی کے باوجود،
کسی قومی اعزاز کے مستحق قرار نہیں پائے۔
جی ہاں یہ حقیقت ہے کہ افضال احمد جو ( بذات خود ) اپنی فنی قامت اور تخلیقی صلاحیت منوانے کے لئے یقیناً کسی تائید ( اور تصدیق ) کے محتاج نہیں، مگر یہ معاشرے اور اس کے فیصلہ سازوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اقدامات سے اپنی بصیرت اور بصارت ثابت کرنے کے لئے فنکار کی قدر و منزلت کا شعور رکھتے ہوں۔
نہیں معلوم اس کوتاہ بینی، مجرمانہ غفلت، اور ایک بلند پایہ فنکار کی عظمت سے مسلسل چشم پوشی کا سزاوار کون ہے،
وہ کون ہے جس کی آنکھیں افضال احمد کی فنکارانہ چمک اور جگمگا ہٹ سے چندھیائیں نہیں!
وہ کون ہے جو اداکاری کے معیار اور عوامی مقبولیت کے اقرار سے اس قدر بے خبر ہے!
وہ کون ہے جس کی کسوٹی، ایک تسلیم شدہ عظمت کو پرکھنے کی سطح تک آنے کی اہل نہ ہو سکی۔
یہ منظر کشی، تصویر کا محض انفرادی رخ ہے، جو بلاشبہ نہایت افسوس ناک اور بجا طور پر عدم توجہی اور ناقدری کی شرم ناک مثال ہے مگر یہ سوالات اس وقت اور معنی خیز، اور مزید تکلیف دے ہو جاتے ہیں جب قومی اعزازات کے انعام یافت گان کی فہرست کو ٹٹولا جائے تو یہ حیرانی ( اور اس سے بڑھ کے ) صدمہ دو چند ہوجاتا ہے کہ یہ کیوں کر ممکن ہے کہ افضال احمد جیسے بلند قامت کو، یہاں ابھی تک شمار نہ کیا گیا ہو۔
یہ سارے سوالات ابھی جواب طلب ہیں، مگر اس کہانی کا المیہ یہ ہے کہ فن سے عشق اور کام سے جنون کی سزا بھی، کسی اور کا نہیں، ایک حساس فنکار کا ہی مقدر ہوئی۔
آج افضال احمد، قدرت کی آزمائش سے دوچار ہوتے ہوئے خالق حقیقی سے حاملے خاموشی اختیار کرنے پر مجبور ہیں مگر، اس بات سے بھلا کسے اختلاف ہو سکتا ہے کہ ہماری چھوٹی اور بڑی سکرین ( اور تھیٹر کی وسعت ) ہمیشہ ان کی دلنشیں آواز کی مقروض رہے گی۔ وہ آواز جو بے جان اور سادہ الفاظ میں زندگی بھر دیتی تھی۔ وہ آواز جس کا اتار چڑھاؤ منظر اور مکالمے کی معنویت کا حق ادا کر دیتا تھا۔ وہ آواز جس کا تاثر، دیکھنے اور سننے والا، اپنی سماعت کی سوغات تصور کرتا تھا۔