Mother

ماؤں کے ساتھ جشن‘ منانے والی مراکش کی ٹیم میں یورپی کلبز کی دلچسپی کیسے بڑھ رہی ہے

مراکش سے شکست کے بعد سپین کے مینیجر لوئس انریکے نے پوچھا ’یہ لڑکا کہاں سے ہے؟ یہ تو ہسپانوی کھلاڑیوں جیسا کھیلتا ہے۔ اس نے بھاگنا نہیں چھوڑا۔ وہ ضرور تھک گیا ہو گا۔‘

وہ مراکش کے ان چار میں ایک فٹبالر عزالدین اوناحی کی بات کر رہے تھے جن کا تعلق مراکش کے شہر سلا میں واقع محمد ششم اکیڈمی سے ہے۔ مراکش کے اِن کھلاڑیوں میں اب یورپ کے بڑے فٹبال کلب بھی دلچسپی لے رہے ہیں۔

عزالدین اوناحی فرانس کے ایک چھوٹے کلب ’انجیہ‘ کے لیے کھیلتے ہیں مگر انھوں نے اپنا انٹرنیشنل ڈیبیو رواں سال جنوری میں کیا اور ڈی آر کانگو کے خلاف گول کر کے مراکش کو ورلڈ کپ کے لیے کولیفائی کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

مراکش کی پے در پے کامیابیوں کے بعد انجیہ کلب کے چیئرمین نے بتایا ’کیا فون بہت زیادہ بج رہا ہے؟ ہاں فون بہت بج رہا ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ مراکش کے فٹبالرز اوناحی اور سفیان بوفال میں بہت دلچسپی لی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں انھیں فون کالز موصول ہو رہی ہیں۔ بوفال نے اپنے انٹرنیشنل کیریئر کا آغاز ہی قطر میں کیا ہے۔

اسی طرح بلیجیئم کے سابق مینیجر اور سپین کے کوچ روبرٹو مارٹینز سلیم املاح سے متاثر ہوئے ہیں اور خیال ہے کہ ان میں پریمیئر لیگ کے کلب دلچسپی لے رہے ہیں۔ انھوں نے ستمبر سے کوئی کلب میچ نہیں کھیلا کیونکہ ان کا بیلجیئم کے کلب سٹینڈرڈ لیج سے معاہدہ ہے۔

مراکش کی دفاعی حکمت عملی نے ان کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ انھوں نے اب تک ورلڈ کپ کے کسی میچ میں کوئی گول نہیں دیا۔ کینیڈا کے خلاف انھوں نے ایک اون گول کیا تھا۔

رگراگی کی ٹیم کے 26 رکنی سکواڈ میں سے 14 کھلاڑی ملک سے باہر پیدا ہوئے۔ ان میں سے کئی کھلاڑیوں کا تعلق یورپ کی پناہ گزین برادری سے ہے اور شاید یہی وہ وجہ ہے جس نے انھیں یورپی ٹیموں پر بھاری ثابت کیا ہے۔

مراکش کو افریقہ، عرب اور یورپ میں ان کی برادریوں کی بڑی حمایت حاصل رہی ہے۔ مگر ورلڈ کپ میں شاید پہلی بار اتنے بڑے مقابلوں میں جیت کے جشن کا منفرد انداز دیکھا گیا ہے۔

جیسے اشرف حکیمی نے سپین کے خلاف کامیاب پینلٹیوں کے بعد شائقین میں جا کر اپنی والدہ کو بوسہ دیا۔ جبکہ سفیان بوفال کوارٹر فائنل میں پرتگال کو شکست دینے کے بعد میدان میں اپنی والدہ کے ساتھ جھومتے نظر آئے۔

یہ ٹیم کُھل کر اپنے اسلامی عقیدے کا مظاہرہ کرتی ہے جیسے میچ کے بعد وہ میدان میں سجدے کرتے ہیں اور پینلٹیوں سے قبل کھلاڑی ہاتھ اٹھا کر دعائیں مانگتے ہیں۔

محض 24 سال کے اشراف حکیمی ریال میڈرڈ، بی ڈی، پی ایس جی اور انٹر میلان کے ساتھ کھیل چکے ہیں اور وہ یورپی کلبز کے لیے کوئی اجنبی نہیں۔

اسی طرح کپتان رومان سایس کا موازنہ اٹلی کے معروف کھلاڑی مالدینی سے کیا جاتا ہے۔

گول کیپر یاسین بونو کینیڈا میں پیدا ہوئے تھے اور انھیں سپین کی لا لیگا میں گذشتہ سیزن کے دوران بہترین گول کیپر قرار دیا گیا تھا۔

’آپ سوچیں گے کہ یہ پاگل پن ہے، مگر پاگل پن اچھا ہوتا ہے‘

مراکش کے مینیجر ولید رگراگی نے کہا ہے کہ ان کی ٹیم اس وقت دنیا کی بہترین چار ٹیموں میں سے ایک ہے اور وہ ورلڈ کپ جیتنے کے لیے پُرعزم ہیں۔

بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب مراکش وہ پہلی افریقی ٹیم بن جائے گا جو ورلڈ کپ سیمی فائنل مقابلے تک پہنچ پائی۔ مراکش کا آج رات سیمی فائنل مقابلہ فرانس سے ہو گا۔ رگراگی نے کہا ’کیوں نہ ہم ورلڈ کپ فائنل میں پہنچ جائیں؟ ہماری بھرپور کوشش ہو گی کہ اپ سیٹ کی کوششیں کریں۔‘

’ہم اپنے براعظم میں ذہنیت تبدیل کرنے کی غرض سے اس مقابلے میں آئے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ہر میچ سے قبل لوگوں کو لگا کہ ہم ناک آؤٹ ہو جائیں گے۔ مگر ہم پھر بھی یہیں ہیں۔‘ رگراگی نے اگست میں اس میچ کا کنٹرول سنبھالا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم اپنے خواب کی تعبیر کے قریب ہیں اور ہم اس کے لیے لڑیں گے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’اگر ہم کہیں سیمی فائنل میں پہنچنا کافی ہے تو میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ ہم سیمی فائنل تک آنے پر مطمئن نہیں اور ایسا کرنے والی پہلی افریقی ٹیم بن کر ہم مزید آگے جانا چاہتے ہیں۔‘

’آپ سوچیں گے کہ یہ پاگل پن ہے مگر پاگل پن اچھا ہوتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم بھوکے ہیں۔ مجھے معلوم نہیں آیا یہ کافی ہو گا۔ لیکن ہم چاہتے ہیں کہ افریقہ دنیا میں سب سے اوپر ہو۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہم فیورٹس نہیں مگر ہمیں خود پر یقین ہے۔‘

ورلڈ کپ مقابلوں میں مراکش کی آخری بہترین کارگردگی 1986 میں دیکھی گئی تھی جب وہ آخری 16 ٹیموں میں آنے کے بعد ناک آؤٹ ہو گئے تھے۔ رواں سال سے قبل انھوں نے ورلڈ کپ کے لیے چار مرتبہ کوالیفائی کیا تھا۔ تاہم وہ گروپ مرحلے میں ہی باہر ہوجاتے تھے۔

ٹورنامنٹ کے آغاز سے قبل فیفا کی رینکنگ میں ان کا 22واں نمبر تھا۔ انھوں نے 2018 میں ورلڈ کپ فائنل ہارنے والی ٹیم کروشیا کے خلاف صفر، صفر پر مقابلہ ڈرا کیا۔ جبکہ ٹاپ 10 ٹیموں کے خلاف تین فتوحات حاصل کیں۔

گروپ ایف میں عالمی رینکنگ میں دوسرے نمبر کی ٹیم بیلجیئم کے خلاف دو صفر کی جیت سے وہ گروپ میں سرِفہرست آگئے۔ پھر انھوں نے سپین کو پینلٹیوں میں ہرایا اور اس کے بعد پرتگال کے خلاف کوارٹر فائنل میں ایک صفر کی جیت حاصل کی۔

رگراگی نے کہا ہے کہ ان کی ٹیم ایک اور دھچکہ دے سکتی ہے۔ ’ہم نے بہترین ٹیموں کو ہرایا ہے۔ یہ ناک آؤٹ مقابلہ ہے اور ہماری خواہش ہے کہ شائقین کے سپورٹ کے ساتھ ہم یہ میچ جیت جائیں گے۔‘

’آپ جتنے آگے جاتے ہو میچز اتنے کی مشکل ہوتے جاتے ہیں۔ ہمارا مقابلہ عالمی چیمپیئنز کے ساتھ ہے جس میں بہترین ورلڈ کلاس کھلاڑی اور بہترین کوچ ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ فرانسیسی کوچ دیدیہ دشان ممکنہ طور پر دنیا کے بہترین کوچ ہیں۔

مگر مراکش کو انجریوں کا سامنا ہے۔ رومان سایس اور نایف اکرد دونوں کو ڈراپ کیا جاسکتا ہے۔ قطر کے البیت سٹیڈیم میں قریب 20 ہزار مراکشی شائقین کے آنے کا امکان ہے۔

ارجنٹائن اور کروشیا کے میچ کے دوران مراکش کی گلیوں میں کروشیا کے فائنل میں پہنچنے کی امید کی جا رہی تھی۔ جیسے ایک شہری تھامس نے کہا کہ ’ارجنٹائن بہت خطرناک ٹیم ہے۔ میسی ایک سٹار کے طرح کھیل رہے ہیں۔‘

یہ بھی اہم ہے کہ مراکش کو نہ صرف افریقہ میں سپورٹ حاصل ہے بلکہ پوری عرب دنیا ان کی حمایت کر رہی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں