بھارت کے ذرائع ابلاغ اور نیوزایجنسیوں نے مودی حکومت کے قریبی ذرائع کے حوالے سے یہ خبر شائع کی ہے بھارت نے آبی تنازعے سے متعلق سن 1960 کے سندھ طاس معاہدے میں ترامیم کے لیے پاکستان کو ایک نوٹس بھیجا ہے۔
آبی تنازعات: سندھ طاس معاہدہ اور ماحولیاتی نکات پر بحث
اطلاعات کے مطابق یہ نوٹس سندھ آبی معاہدے کے کمشنرز کے ذریعے پاکستان کو 25 جنوری کے روز پہنچادیا گیا۔
آبی ماہرین کے دورے کا التواء: کیا کشیدہ تعلقات کا نتیجہ ہے؟
بھارت اور پاکستان نے نو برس کی بات چیت کے بعد ستمبر سن 1960 میں اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کا ایک فریق عالمی بینک بھی ہے اور اس کے بھی اس معاہدے پر دستخط ہیں۔
کیا آبی تنازعات پر جامع مذاکرات کا راستہ ہموار ہو گا؟
بھارتی حکومت کی دلیل کیا ہے؟
بھارتی میڈیا کے مطابق بھارت نے معاہدے میں ترمیم کا نوٹس اس مقصد کے تحت جاری کیا ہے تاکہ پاکستان کو آئندہ 90 دنوں کے اندر بین الحکومتی مذاکرات میں شامل ہونے کا موقع فراہم کرنے کے ساتھ ہی معاہدے کی خلاف ورزی کو درست کیا جا سکے۔
پانی سے متعلق تنازعہ، پاک بھارت مذاکرات شروع ہونے کا امکان
اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس عمل کے ذریعے گزشتہ 62 برسوں کے دوران جو سبق سیکھے گئے ہیں، اس کو بھی انڈس واٹر معاہدے میں شامل کر کے اسے اپ ڈیٹ کرنا ہے۔
دہلی کا یہ بھی الزام ہے بھارت کی جانب سے کوششوں کے باوجود پاکستان گزشتہ پانچ برسوں کے دوران اس کے کشن گنگا اور رتلے ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹس پر بات چیت اور اس معاملے کو حل کرنے سے انکار کرتا رہا ہے، اس لیے بھی ترمیم کا نوٹس جاری کیا گیا ہے۔
بھارت کا دعوی ہے کہ وہ ہند طاس معاہدے پر عمل کرنے کا حامی رہا ہے، ”تاہم پاکستان کے اقدامات نے سندھ آبی معاہدے کی دفعات اور ان کے نفاذ پر منفی اثر ڈالا ہے، اس لیے بھارت اس بات پر مجبور ہوا کہ وہ معاہدے میں ترمیم کے لیے ایک مناسب نوٹس جاری کرے۔”
بات یہاں تک کیسے پہنچی؟
واضح رہے کہ پاکستان نے سن 2015 میں بھارت کے کشن گنگا اور رتلے ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹس پر اپنے تکنیکی اعتراضات کی جانچ کے لیے ایک غیر جانبدار ماہر کو طلب کرنے کی بات کہی تھی۔
تاہم بھارت کا دعوی ہے کہ سن 2016 میں پاکستان نے یکطرفہ طور پر اس درخواست کو واپس لے لیا اور یہ تجویز پیش کی کہ ایک ثالثی عدالت اس کے اعتراضات پر فیصلہ کرے۔
بھارت کا کہنا ہے کہ پاکستان کی طرف سے یہ یکطرفہ کارروائی تھی، جو معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ حالانکہ اسی مناسبت سے بھارت نے بھی ایک الگ درخواست دی تھی کہ معاملہ کسی غیر جانبدار ماہر کے پاس بھیج دیا جائے۔
تو اہم بات یہ ہے کہ ایک ہی معاملے میں بیک وقت دو طرفہ عمل سے ایک دوسرے کے برعکس یا متضاد نتائج سامنے کا امکان ہے، جو قانون کی نظر میں درست نہیں ہے اور اس سے خود معاہدے کو بھی خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
بھارت کا کہنا ہے کہ ”عالمی بینک نے سن 2016 میں خود اس بات کا اعتراف کیا تھا اور دو متوازی عمل کو ‘روکنے’ کا فیصلہ کرتے ہوئے بھارت اور پاکستان سے ایک خوشگوار راستہ تلاش کرنے کی درخواست کی تھی۔
سند آبی معاہدہ کیا ہے؟
سندھ طاس معاہدے میں اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ ”انڈس بیسن” کے چھ دریاؤں اور ان کی معاون ندیوں کا پانی کون ملک اور کیسے استعمال کرے گا۔ ان چھ میں سے تین دریا پاکستان کے حصے میں آئے جبکہ باقی تین بھارت کے حصے میں آئے تھے۔
ان دریاؤں کو مشرقی اور مغربی دریا بھی کہا جاتا ہے۔ دریائے سندھ، جہلم اور چناب مغربی دریا ہیں جن کے پانی پر پاکستان کا حق ہے۔
دریائے راوی، بیاس اور ستلج مشرقی دریا ہیں جن کے پانیوں پر بھارت کا حق ہے۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت مغربی دریاؤں کا پانی بھی استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے، تاہم اس کے لیے اس پر بعض سخت شرائط عائد کی گئی ہیں۔ بھارت کو ان دریاؤں پر بجلی گھر بنانے کی بھی اجازت ہے، تاہم شرط یہ ہے کہ ان کے پانی کا بہاؤ ایک مقرر حد سے کم نہ ہونے پائے۔
کشن کنگا جہلم کا ہی ایک معاون دریا ہے جو پاکستان میں دریائے نیلم کے نام سے معروف ہے۔ بھارت نے اسی دریا پر لائن آف کنٹرول کے بالکل قریب ایک بجلی گھر بنایا ہے، جسے کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹ کہتے ہیں اور اسی پر دونوں ملکوں کے خلاف شدید تنازعات ہیں۔