*کیانواز شریف کہ بغیر ھم الیکشن جیت سکتے ھیں* *تحریر ۔جاوید اقبال بٹ مدینہ منورہ*

*کیانواز شریف کہ بغیر ھم الیکشن جیت سکتے ھیں*
*تحریر ۔جاوید اقبال بٹ مدینہ منورہ*
*کیا ن لیگ ترازو کہ پلڑے برابر کرا پائے گی ؟*
*یا صرف سیاسی نعرہ ھی رھے گا*
*کیا نواز شریف کا کیس undoھو گا*
موجودہ سیاسی صورتحال
پنجاب اور پختونخواہ میں 30 اپریل کا منعقد ھونا ھے
جبکہ آج 16 اپریل کاغزات جمع کروانے کی آخری تاریخ ھے
میرا خیال حکومت سمجھ یا تاثر پایا ھے 30 اپریل کو الیکشن نہیں ھوں گئے
تو پھر مسلم لیگ کاغذات کیوں جمع کروا رھی ھے
مریم نواز اور حمزہ شہباز شریف سمیت صوبائی اسمبلی کا الیکشن 3حلقوں سے لڑ رھے ھیں
اسکا مطلب کوئی حتمی بات نہیں ھے ھے کے الیکشن تاخیر سے ھوں گئے
بلکہ 90فیصد 30 اپریل کو ھوں گئے جسکا مطلب ن لیگ ٹرین مس کر چکی ھے
ٹکٹوں کی تقسیم کا فارمولا کیا رکھا
اورسیز پاکستانیوں کو پوچھا تک نہیں ھے ٹکٹ دینا تو دور کی بات درخواست کی فیسیں ھی جمع کر لیتے
دوسرا 100 فیصد یقین سے کہہ رھا ھوں کہ 30 اپریل کا الیکشن نواز شریف کہ بغیر ھوگا
اور یہ بھی یقین ھے کہ نواز شریف اس الیکشن میں پاکستان نہیں ھوں گئے
یہ ھی حقیقی صورتحال ھے ورنہ 11 ماہ ھو چکے ھیں حکومت نے نواز شریف کی وطن واپسی کہ لئے صفر فیصد کوشش کی ھے نہ ھی کوئی بیانہ بنایا ھے نہ ھی کوئی پریشر اور نہ ھی لیگل ٹیم نے ھوم ورک 11 ماہ میں مکمل کیا ھے نہ اس پر تبصرہ کسی گروپ پلیٹ فارم یا مرکزی تنظیم پاکستان سنٹرل کمیٹی میں اٹھایا ھے اور نہ اس پر کسی مسلم لیگ گروپ میں سنجیدگی سے بات ھوئی ھے
اسکا مطلب پارٹی بغیر نواز شریف 30 اپریل الیکشن میں جائے گی جس میں نواز شریف کی کمپین شامل نہ ھو تو سمجھ لیں نتائج کیا ھوں گئے اب وقت نکل چکا ھے اب اگر نواز شریف صاحب واپس بھی آجائیں تو گیم ختم ھو چکی ھے کیونکہ قانونی مسائل اپنی جگہ موجود ھیں لیگل ٹیم نے کی طرف سے اپنی سنیر قیادت بشمول شہباز شریف اور مریم نواز شریف بھی واپسی کا کوئی حتمی بیان نہیں دے رھے نہ کسی تنظیمی کنونشن میں عدلیہ یا جنہوں ناحق سزا دلوائی ان سے مطالبہ کر رھے کہ مقدمےUndoکرو
ایک رائے یا ایک مخصوص جگہ پر یہ بات طے چکی ھے نواز شریف عملا سیاست نہیں مشاورت کنسلٹیشن تک محدود اور فیصلے کرنے تک محدود ھوں گئے
بہت سے خدشات ھیں جن کو جواب کارکن چاھتے ھیں کہ اصل صورتحال اور سچ کیا ھے کیونکہ پاکستان میں ووٹ بینک کی واپسی نواز شریف کی وطن واپسی سے مشروط تھی اب ٹکٹ بھی تقسم اور امیواروں کو کسی کو حمزہ لابی کسی کو شہباز شریف لابی اور کسی کو مریم لابی میں تقسیم ھو جائے گی اسطرح کہ حالات میں الیکشن یکطرفہ ھو جائیں گئے
اگر بدقستمی سے تحریک انصاف الیکشن جیت گئی تو جس طرح مسلم۔لیگ ن کی حکومت نے معصومانہ رویہ اور *اچھابچہ* بننے کا لبادہ اوڑھا ھے یقین مانئے یہ 2014 والی غلطی ھے جسکا ھم گذشتہ 3 دن سے عملی طور مظاھرہ دیکھ رھے جو تحریک انصاف چارج ھو رھی ھے اور ن لیگ سیاسی بیک فٹ پر پسپا ھو رھی ھے اور ووٹ بینک بھی نون لیگ کا ھر روز کم ھو رھا ھے اور وقت تیزی سے گزر رھا ھے ابھی تک یہ بھی کہیں میٹنگ نہیں ھوئی کہ اس دفعہ الیکشن 30 اپریل والا پنجاب پختونخواہ اتحادی جماعتیں ملکر لڑیں گی یا اپنی جداگانہ حثیت سے میدان میں اتریں گئے
اگر الیکشن ملکر حصہ لیتے ھیں سیٹ ایڈجسمنٹ پر کوئی بات نہیں ھو رھی ھے بہت سوال ھیں جو واضع نہیں بلکہ شدید دھندلے سوالات اورگھمبیر مسائل سر اٹھائے کھڑے ھیں
وقت تیزی سے نکل رھا ھے بلکہ نکل چکا ھے کچھ بہتا سیاسی وقت جو بچا ھے اس سے کس طرح استفادہ ھونا ھے قائد محترم میاں نواز شریف اعلان کریں اور کارکنان کو اعتماد میں لیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں