پاکستانی نژاد حمزہ یوسف

سکاٹ لینڈ کے پہلے مسلم سربراہ پاکستانی نژاد حمزہ یوسف کون ہیں؟

سکاٹ لینڈ کی پارلیمنٹ نے پاکستانی نژاد حمزہ یوسف کو فرسٹ منسٹر منتخب کیا ہے۔ 37 سالہ حمزہ یوسف سکاٹ لینڈ کے سب سے کم عمر نوجوان اور پہلے مسلم سربراہ ہیں۔

سکاٹ نیشنل پارٹی (ایس این پی) سے تعلق رکھنے والے حمزہ یوسف کو اپنی جماعت کے علاوہ سکاٹش گرینز پارٹی کے ارکان کی بھی حمایت حاصل ہوئی۔

انھوں نے اپنی تقریر کے دوران کہا کہ ’میں آپ کے سامنے کسی مغربی جمہوری قوم کے پہلے مسلمان سربراہ کی حیثیت سے کھڑا ہوں۔‘

ووٹنگ کے دوران ان کے مقابلے میں تین اپوزیشن رہنما کھڑے ہوئے مگر انھیں معلوم تھا کہ ان کی کامیابی کے بہت کم امکانات ہیں۔

وہ برطانیہ کی بڑی سیاسی جماعت کی قیادت کرنے والے پہلے مسلمان ہیں۔ اس سے قبل سعیدہ وارثی 2010 سے 2012 تک کنزرویٹو پارٹی کی شریک چیئر پرسن رہ چکی ہیں۔

حمزہ یوسف کے والد کا تعلق پاکستان کے شہر میاں چنوں سے ہے، جو 1960 کی دہائی میں اپنے خاندان کے ساتھ سکاٹ لینڈ نقل مکانی کر گئے تھے جبکہ ان کی والدہ کینیا میں ایک جنوبی ایشیائی خاندان میں پیدا ہوئی تھیں۔

حمزہ یوسف اکثر اپنے ساتھ ہونے والے نسل پرستانہ سلوک کے بارے میں بات کرتے رہے ہیں۔

واضح رہے کہ گذشتہ روز سکاٹ لینڈ کی حکمران جماعت سکاٹش نیشنل پارٹی نے پاکستانی نژاد حمزہ یوسف کو پارٹی کا نیا سربراہ منتخب کیا۔

37 سالہ حمزہ یوسف سکاٹ لینڈ کی فرسٹ منسٹر نکولہ سٹرجن کی جگہ لیں گے جو گذشتہ ماہ آٹھ برس تک ایس این پی کی سربراہ رہنے کے بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئی تھیں۔

حمزہ یوسف کا ایس ایم پی کی لیڈر شپ کے انتخاب میں کیٹ فوربز اور ایش ریگن سے مقابلہ تھا۔ ایش ریگن کے پہلے راؤنڈ سے باہر ہونے کے بعد حمزہ یوسف نے دوسرے راؤنڈ میں 52 فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ فوربز کو 48 فیصد ووٹ ملے۔

حمزہ یوسف نے ایس این پی کا سربراہ منتخب ہونے کے بعد کہا کہ اگر وہ منگل کو سکاٹ لینڈ کی پارلیمنٹ میں ووٹنگ کے دوران فرسٹ منسٹر منتخب ہوتے ہیں تو یہ ان کے لیے ’سب سے بڑا اعزاز‘ ہوگا۔سکاٹ لینڈ کے اپوزیشن رہنماؤں نے حمزہ یوسف کو مبارکباد دی لیکن متنبہ کیا کہ وہ ان کا احتساب کریں گے۔حمزہ یوسف پہلی بار 2011 میں 26 سال کی عمر میں گلاسگو سے سکاٹش پارلیمنٹ کے رکن بنے تھے۔ وہ سکاٹش کابینہ میں وزیر ٹرانسپورٹ اور وزیر انصاف بھی رہ چکے ہیں۔حمزہ یوسف اس وقت سکاٹ لینڈ کے وزیر صحت ہیں اور عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ نکولہ سٹرجن کے پسندیدہ جانشین ہیں حالانکہ انھوں نے واضح طور پر مقابلے میں کسی بھی امیدوار کی حمایت نہیں کی۔
لیبرپارٹی کے سربراہ سر کئیر سٹارمر اور سکاٹش لیبرپارٹی کے سربراہ انس سرور نے بھی حمزہ یوسف کو ایس این پی کا سربراہ منتخب ہونے پر مبارکباد دی جبکہ میئر لندن صادق خان نے حمزہ یوسف کے فرسٹ منسٹر بننے پر نیک خواہشات کا اظہار کیا۔برطانیہ کی کسی بڑی جماعت کے پہلے مسلمان سربراہحمزہ یوسف کسی برطانوی سیاسی جماعت کے پہلے مسلمان اور پاکستانی نژاد رہنما ہوں گے۔حمزہ یوسف نے گلاسگو کے ہچیسنز گرامر پرائیویٹ سکول میں تعلیم حاصل کی، جہاں وہ سکاٹش لیبر رہنما انس سرور سے دو سال پیچھے تھے۔گلاسگو یونیورسٹی میں سیاست کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایک کال سینٹر میں مختصر طور پر کام کیا، جس کے بعد انھوں نے سکاٹش نیشنل پارٹی کے رکن پارلیمان ایم ایس پی بشیر احمد کے پارلیمانی اسسٹنٹ اور بعد میں وہ ایلکس سالمنڈ کے معاون بنے۔حمزہ یوسف کو 2011 میں گلاسگو ریجن کے لیے سکاٹش ممبر پارلیمان کے طور پر منتخب کیا گیا تھا، جس کے صرف ایک سال بعد انھیں یورپ اور بین الاقوامی ترقی کے وزیر کے عہدے پر ترقی دی تھی۔وہ 2016 میں وزیر ٹرانسپورٹ بن گئے، اس جیت کے بعد وہ سکاٹش پارلیمنٹ میں حلقے کی نشست جیتنے والے پہلے اقلیتی امیدوار بن گئے۔ٹرانسپورٹ کا محکمہ سنبھالنے کے چھ ماہ بعد، حمزہ یوسف کو اس وقت تین سو پاؤنڈ جرمانے اور لائسنس پر چھ پنالٹی پوائنٹس دیے جانے کی شرمندگی اٹھانا پڑی جب پولیس نے مناسب انشورنس کے بغیر انھیں اپنے دوست کی گاڑی چلاتے ہوئے روک لیا۔حمزہ یوسف کو 2018 میں دوبارہ ترقی دی گئی جب سٹرجن نے اپنی کابینہ کی ٹیم میں ردوبدل کے ایک حصے کے طور پر انھیں نیا وزیر انصاف نامزد کیا لیکن ان کا نفرت پر مبنی جرائم کے خلاف بل اس خدشے کے باعث تنازعات میں گھرا رہا کہ اس سے آزادی اظہار پر اثر پڑ سکتا ہے۔ناقدین کا کہنا تھا کہ اس قانون کے نتیجے میں لائبریریوں اور کتابوں کی دکانوں پر ان کے شیلف پر متنازع کتابیں رکھنے پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے، نئے قانون کے ساتھ لوگوں کو ان کے اپنے گھر میں نجی گفتگو کے لیے مجرم قرار دینے کا بھی امکان ہے۔یہ بل بالآخر مارچ 2021 میں متعدد تبدیلیوں کے بعد منظور کیا گیا تھا لیکن ابھی تک قانون نہیں بن سکا۔مئی 2021 میں سیکرٹری صحت بننے کے تین ہفتے بعد حمزہ یوسف نے اپنے اس بیان کی وجہ سے معافی مانگی جس میں انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ 10 بچوں کو ’کووڈ کی وجہ سے‘ ہسپتال میں داخل کیا گیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں