عدلیہ عمران خان کو پروٹیکٹ کرنے کیلئے آہنی دیوار بن گئی ہے ، وزیراعظم شہبازشریف

اسلام آباد (نئی دنیا )وزیراعظم شہبازشریف نے کہاہے کہ عدلیہ عمران خان کو پروٹیکٹ کرنے کیلئے آہنی دیوار بن گئی ہے ، کسی کو قانون ہاتھ میں نہیں لینے دیا جائے گا، عمران نیازی کو دس سال فاشسٹ ڈکٹیٹر بنانے کا ایجنڈا تھا، اس کے حواری ساتھ بیٹھیں گے۔

عمران نیازی نے ایک سے زیادہ مرتبہ یہ کہا کہ پاکستان کے حالات سری لنکا جیسے ہونے جارہے ہیں، وہ دل میں بد دعائیں کر رہاتھا کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائے اور ہم شدید مالی بحران میں مبتلا ہو جائیں ، جیسے کہ ہمارے چیلنجز کم نہیں تھے ، ایک سال کی تصویر ہے جو آپ کے سامنے ہے جب سے وہ وزیراعظم بنوایا گیا اور جن لوگوں نے دھاندلی سے وزیراعظم بنوایا وہ ساری کہانی پوری قوم کے سامنے ہے ، یہ جو منصوبہ تھا 2018 سے پہلے سے شروع ہو چکاتھا ، جب مسلم لیگ کی حکومت تھی ، کس طریقے سے عمران نیازی کو اس منصوبے کے تحت پوری طرح گائیڈ کیا جارہا تھا ، اسے بتایا جارہاتھا کہ آپ یہ جھوٹا الزام فلاں پر لگاﺅ ، ٹیلی ویژن پر آﺅ اور کاغذات لہراﺅ، لوگوں کو یہ باور کرایا جائے کہ باقی چور ہیں اور میں فرشتہ ہوں ، نتیجے میں پوری قوم تقسیم ہو گئی ، یہ زہر ہر جگہ پہنچ چکاہے ، چاہے وہ سیاسی جماعتیں ہیں ، یا مذہبی مدرسے ہیں یا تعلیمی ادارے ، زندگی کے ہر ط بقے میں یہ زہر پہنچ چکاہے ، چور ڈاکو کی گردان انہوں نے دن رات کی، جھوٹے مقدمات میں انتقام لینے کی خاطر ان کوجیلوں میں بھجوایا ، کیا کسی عدالت نے اس وقت نوٹس لیا ، میں نہیں کہا کہ سو موٹ لینا چاہیئے تھا ، عاد پڑ گئی ہے سو موٹو لینے کی، کیا کسی نے کوئی سوموٹو لیا ، نیب اور ایف آئی اے جو کیسز بنائے ہیں ،ان کی اپنی ایک آزاد اتھارٹی ہے ، نیب نیازی گٹھ جوڑ نے پاکستان میں جو تباہی مچائی، کاروباری افراد کو بھگا دیا ، سرمایہ کاری بند ہو گئی ، سیاسی لیڈر شپ پر الزامات لگائے گئے ، نیب نے اگر آج حقیقی کیسز بنائے ہیں کرپشن کے ،تو اس کے اوپر آج عدلیہ جس طرح آہنی دیوار بن چکی ہے ، عمران خان کو حفاظت دینے کیلئے ،ا س کی مثال پاکستان کیا بلکہ دنیا میں بھی کہیں نہیں ملتی ، جس طرح ہمارے خلاف جھوٹے کیسز بنائے جارہے تھے ، اس وقت بی آر ٹی، بلین ٹری اور دوسرے منصبوں میں سٹے آرڈر دیئے جارہے تھے بلکہ ان کیسز کی تحقیقات شجر ممنوعہ قرار دی جارہی تھی ، بی آر ٹی پر کیا تماشہ ہوا ،سپریم کورٹ نے سٹے آرڈر دیئے ، نیب کہتی ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں حکم امتناع ملے ہوئے ہیں، مالم جبہ میں نیب نے کلین چٹ دیدی ، صوبے کے اداروں نے کہا کہ بی آرٹی میں اربوں کی کرپشن ہوئی ہے ۔کسی نے نہیں پوچھا کہ کیا ہورہاہے بلکہ سٹے آرڈر دیئے گئے ، جب پشاور ہائیکورٹ نے حکم دیا کہ تحقیقات کی جائیں تو اس پر بھی سٹے آرڈر دے دیا گیا ۔ یہ وہ صورتحال ہے ،
اسی زمانے میں 16 دسمبر 1971 سقوط ڈھاکہ کے بعد9 مئی کا دن بدترین تھا،ذوالفقار بھٹو شہید کو قتل کر دیا گیا ، لیکن کسی فوجی تنصیب کی طرف دیکھا تک نہیں، سب جانتے تھے کہ ذوالفقار بھٹو کا جوڈیشل مرڈر ہواہے ، جب محترمہ بینظیر کو شہید کیا گیا تو فورا انگلیاں اٹھیں، کس طرح خون کو دھو دیا گیا ، بھر پور احتجاج ہوا ، اس وقت عامر حکومت کا سربراہ تھا لیکن کسی فوجی عمارت کو دیکھا تک نہیں ، کسی فوجی تنصیب کی طرف کسی نے رخ نہیں کیا ، بغیر وقت ضائع کیئے ، آصف زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا ، قائد کے بچا ہوا پاکستان بچ گیا ، اس سے بڑی حب الوطنی ، صبر ، برداشت کا کیا ثبوت ہو سکتا تھا ، خاتون وزیراعظم کے الیکشن میں حصہ لے رہی تھی اور انہیں شہید کر دیا گیا۔

نوازشریف کو جس جھوٹے مقدمے میں سزا سنائی گئی ، 100 دن روز نوازشریف اور بیٹی ٹرائل کورٹ میں حاضر ہوتے تھے ، وہ حاضری دیتے تھے لیکن یہ نہیں کہتے تھے کہ مہلت دی جائے ، روزانہ سماعت کی جارہی ہے ، مقصد یہ تھا کہ نوازشریف کو الیکشن سے باہر کیا جائے ،وہ عدالت کے سامنے حاضر ہوتے رہے ۔ایک وظیفہ نہ لینے پر جواز بنایا اور سزا سنا دی ، جب وہ بیٹی کے ساتھ اڈیالہ جیل میں تھے ، جس دن میری بھابھی کا انتقال ہوا، آدھا پونا گھنٹہ ان کو اطلاع ہی نہیں پہنچائی گئی ، جب پتا چلا تو کس عدالت نے کہا کہ نوازشریف آپ کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا آپ گھر جائیں ، کسی نے پوچھا ؟میری والدہ اللہ کو پیاری ہوئیں، میں جیل میں تھا، نوازشریف لندن میں زیر علاج تھے ،کسی نے مجھے کہا کہ تمہاری والدہ کا انتقال ہو گیا ، جاﺅ تدفین کا انتظام کرو، کل چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان آپ کو مل کر بہت خوشی ہوئی ، ایسے مقدمے میں تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ،ملزم کٹہرے میں آئے اور عدالت کہے کہ آپ کو مل کر بہت خوشی ہوئی ۔کبھی عدالت کے کٹہرے میں کسی عام جج نے بھی کہا ہو کہ آپ کو مل کر خوشی ہوئی، اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو قاضی کے پاس پیش ہوئے تو قاضی نے مقدمہ سنا ، فیصلہ کیا ، حضرت عمر فاروق کے حق میں فیصلہ ہوا، مقدمہ ختم ہوا تو قاضی کی چھٹی کرا دی ، قاضی نے کہ انصاف کیاہے ، جب میں آیا تو آپ کھڑے ہو گئے تھے ، قاضی کا کام نہیں ہے کہ حاکم وقت آئے تو قاضی کھڑا ہو جائے ، اسی کی مثال ہمیں کل سپریم کورٹ میں دیکھنے کو ملی ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں