کھاریاں( شاہد بیگ) پاکستان نامہ اور معروضی پاکستانی حالات میجر (ر) ساجد مسعود صادق
پاکستانی تاریخ کا تسلسل ہے کہ ایوب سے لیکر عمران خان تک تمام حکمران جو حکومت سے نکالے گئے انہوں نے یا تو امریکہ یا پھر پاک فوج کو اُن کی حکومت کے تختہ اُلٹنے کا ذمہ دار قرار دیا اور یہ تب ہوا جب وہ روتے دھوتے اقتدار کھو بیٹھے اور یہ بات کسی نے نہ کی کہ یہ سیاستدان اقتدار آئے کیسے؟ بھٹو ایک معمولی سا آدمی تھا جسے صدر ایوب نے پہلے وزیر خزانہ بنایا، پھر وزیر خارجہ بنایا اور پھر وہ اسی صدر ایوب کے خلاف ڈٹ گیا اور آخری سانس لینے تک جرنیلوں سے لڑتا رہا۔ اقتدار میں رہتے ہوئے اُس نے ایک حاضر سروس آرمی چیف کو اغواء کروا کر حبس بے جا میں دو دن بند رکھا وہ اقتدار کے دنوں میں ضیاء الحق (پاکستانی آرمی چیف) کو “میرا بندر” کہا کرتا تھا۔ بھٹو نے پاکستان کو آئین دیا اُس میں بھی آرمی چیف کا عہدہ کسی بھی صوبے کے سیکرٹری سے بھی چھوٹا رکھا گویا آرمی چیف کے اوپر ایک وزیر دفاع اور اُس کے بعد ایک سیکرٹری (سیکرٹری دفاع) اور پھر جاکر آرمی چیف کا نمبر آتا ہے۔
آج بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی موت پر انگلیاں اُٹھائی جاتی ہیں، خان لاقت علی خان کو سازش سے قتل کیا گیا، صدر ایوب نے اپنی کتاب کا ٹائٹل ہی “Friends Not Masters” رکھا، بھٹو بھی یہ دہائی دیتے پھانسی چڑھ گیا کہ “Henery is killing” جنرل ضیاء کی موت بھی ایک سازش کا حصہ تھی جس کے ڈانڈے امریکی بین الاقوامی ایجنڈے سے میل کھاتے نظر آتے ہیں، بے نظیر بھٹو کو پہلے امریکی سفیر نے دھمکیاں دیں پھر اُسے جان سے ہاتھ دھونے پڑے، نواز شریف کو بل کلنٹن نے ایٹمی دھماکے کرنے اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بننے سے بار بار روکنے کی کوشش کی حتٰی کہ پانچ ارب ڈالر کا چارہ بھی ڈالا، جنرل مُشرف نے بھی اپنی کتاب “In the line of Fire” میں امریکہ سے بار بار شکوہ کیا اور اس سارے سلسلے میں سب سے آخر میں عمران خان کی داستان بھی یہی قصہ بیان کرتی نظر آتی ہے۔ گویا پاکستان پچھتر سال سے ایک نازک موڑ پر کھڑا قیادت کی طرف دیکھ رہا کہ وہ کب سنبھلے گی اور کب قومی سلامتی کے تقاضے پورے کرے گی۔
نواز شریف کو گلیوں سے اٹھا کر ضیاء الحق نے پہلے پنجاب کا وزیر خزانہ بنایا پھر پنجاب کا وزیر اعلٰی بنوایا مگر وہ بھی تین بار وزیراعظم بن کر بھی فوج سے ہمیشہ نالاں اور فوج کو زیر کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ پہلے اُس نے ایک آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو معزول کیا، جنرل جنجوعہ کی موت بھی مشکوک تھی، جنرل مشرف کو معزول کرکے نوازشریف نے آرمی چیف بنانے کی کوشش کی۔ کچھ اسی طرح کی داستان بے نظیر کی بھی ہے جسے فوج نے اسلم بیگ دور میں اقتدار پلیٹ میں رکھ کر پیش کیا اور پھر فوج کے مطابق ہی وہ پاکستان کے لیئے سکیورٹی کا خدشہ بن گئی اور اُس کی پراسرار موت پر مُشرف اور اُس کے خاوند آصف علی زرداری کی خاموشی بھی اپنے اندر کچھ اسی طرح کے راز لیئے ہوئے ہے۔ اسی طرح آصف علی زرداری کو مشرف نے صدر بنوایا اور پھر آصف علی زرداری نے امریکہ کو جرنیلوں کے خلاف ہی خط لکھ کر مدد مانگی اور میڈیا میں کُھلے عام دھمکیاں دے کر دوبئی روانہ ہوگیا۔ کچھ یہی حال گجرات کے چوہدریوں کا ہے جو کبھی فوج کی کنگز پارٹی مانے جاتے تھے اب چوہدری پرویز الہی بھی اپنے قائد عمران خان کیساتھ رگڑے میں ہیں۔
عمران خان اپنی ستر سال کوشش میں اقتدار کےایوانوں کے قریب پھٹک بھی نہ سکا پھر سن 2018ء اسے ایمپائر کی اُنگلی اٹھنے اور فوج کی مدد سے اقتدار نصیب ہوا۔ قریب تھا کہ جنرل باجوہ اور عمران خان کی جوڑی پاکستان کو مسائل سے نکال لیتی مگر پھر “سائفر ڈرامہ” شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے “پی ڈی ایم” میں درجن جماعتیں اکٹھی ہوئیں اور عمران خان کو اقتدار سے ہاتھ دھونے پڑے ایسے میں جنرل باجوہ اور فوج نے بھی عمران خان سے آنکھیں پھیر لیں اور تادمِ تحریر عمران خان پابند سلاسل تو اُس کی اکثریتی پارٹی تتر بتر ہوچُکی ہے۔ اس کے بعد شہباز شریف کی حکومت آئی جس کے آتے ہی ڈالر اور پٹرول کی قیمتوں کو آگ لگ گئی اور عوام مہنگائی کے طوفان سے بُلبلا اُٹھے اور آج جب دُنیا ایک طرف بڑی تیزی سے ڈپلومیٹک ایکٹیویٹی میں مصروف عمل ہے پاکستان معاشی، سیاسی اور طرح طرح کے دیگر بحرانوں میں الُجھا ہوا اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا۔ نگران حکومت بھی آئی ایم ایف کے اشاروں پر ناچتے ہوئے پاکستانی عوام کو مہنگائی کے طوفان کے ذریعے قبروں تک پہنچانے جیسے اقدامات کررہی ہے۔
پاکستانی حیران ہیں کہ آخر پاکستانی عسکری اور سیاسی قیادت کی آپس کی پچھتر سالہ کشمکش اس وقت مُلک کو کس مقام پر لے آئی ہے؟ آج عوام مہنگائی سے بُلبلارہے ہیں، قومی خزانہ خالی ہے، پوری دُنیا میں ایٹمی قوت ایک بھکاری ریاست سے زیادہ کوئی وقعت نہیں رکھتی قوم کا ہر مکتبہ ہائے فکر پریشان ہے کہ پاکستان کو ان دُگرگوں مسائل سے کیسے نکالا جاسکتا ہے؟ آج پاکستان کے تمام ادارے بے وقعت بے اثر ہوچُکے ہیں، معاشی طور پر پاکستان ڈیفالٹ کے قریب ہے، انصاف نام کی معاشرے میں کوئی چیز نہیں، غریب مٹ رہے ہیں اور متوسط طبقہ پریشان حال ہے ایسے میں حکمرانوں کے الّلے تلّلے اور عیاشیاں عروج پر ہیں انہیں اس بات کی فکر ہی نہیں کہ مُلک کس طرف جارہا ہے اور ادارے اور اداروں کے سربراہان دست وگریباں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کررہے ہیں۔
پاکستان کی آج نہ کوئی فارن پالیسی ہے نہ داخلہ اور نہ تجارت اور نہ کوئی معاشی منصوبہ جو پاکستان کو اس معاشی دلدل سے نکال سکے ایسے میں پاکستانی حکمران بین الاقوامی مالیاتی ادارو اور دوسرے ممالک کے سامنے کشکول پھیلائے پھر رہے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کے دُشمن جشن منارہے ہیں کہ جس عظیم مُلک کو آغاز میں ہی وہ ختم کرنا چاہتے تھے آج اُس کی قیادت خود ہی اس مقام پر لے آئے ہیں یعنی دُشمن جو کام پچھتر سالوں میں نہ کرسکا وہ پاکستانی قیادت نے کردکھلایا۔ ایسے میں امریکی فارن پالیسی لیجنڈ ہینری کسنجر کی یہ بات یاد کرنے کی ضرورت ہے کہ “امریکہ کی دُشمنی بڑی خطرناک اور دوستی اُس سے بھی خطرناک ہے” (بحوالہ خورشید قصوری کی کتاب۔۔۔Neither Dove Nor A Hawk)۔ ایسے میں جنوبی ایشیاء کی سیاست کے ماہر اسٹیفن پی کوہن کی بات بھی یاد کرنے کی ضرورت ہے کہ “پاکستان تیس سال بعد ٹوٹ جائے گا” اور یہ بات اُس نے اپنی تین پاکستان پر لکھی گئی کتابوں میں لکھی ہے۔
فوج نے جب بھی پکارا عوام جان و مال کے ساتھ لبیک کہتے ہوئے گھروں سے نکلے اور جب سیاستدانوں نے پُکارا تب بھی انہوں نے ان کے جلسوں میں ناچ ناچ کر اپنا حال بُرا کیا۔حکمرانوں نے ابھی تک پاکستانی عوام سے قربانیاں مانگی ہیں اور ان کے کہنے پر غریب لوگوں نے اپنی دولت اور اولادیں تک قربان قربان کی ہیں۔ جیسے ذاکر اور مواعظ جہاد میں حصہ نہیں لیتے ویسے ہی حکمرانوں نے پاکستان بنانے کے کام میں حصہ نہیں لیا بلکہ غریبوں کی قربانیوں پر گذارہ کیا ہے یہ آخری چانس ہے کہ حکمران اب خود قربانی کے لیئے آگے بڑھیں اور ان سے کوئی جانی یا مالی قربانی نہیں مانگے گا انہوں نے بس اپنی اناؤں کی قربانی دینی ہے اور دوسری قربانی انہوں نے سرکاری مال پر عیاشی سے ہاتھ کھینچ کر دینی ہے۔
اگر خُدانخواستہ پاکستان کو کوئی نقصان پہنچا اور اس کے بارے مؤرخ جب تاریخ لکھے گا تو سرفہرست یہ لکھے گا کہ پاکستان کو دُشمنوں سے زیادہ اس کی قیادت نے نقصان پہنچایا۔ اور وہ یہ بھی لکھے گا جب سن 1971 میں پاکستان ٹُوٹ رہا تھا اُس وقت اور جب کشمیر کو مُودی بھارت میں ضم کررہا تھا اُس وقت اور جب دُنیا تیسری عالمی جنگ (جو کہ پاکستان میں متوقع طور پر لڑی جائے گی) کی منصوبہ بندی کررہی تھی ایسے میں پاکستانی عسکری و سیاسی قیادت اور ادارے روز اوّل کی طرح آپس میں دست و گریباں اور قائدین خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ عسکری و سیاسی قیادت اور تمام اداروں کے سربراہان سے امید اور اپیل کی جاتی ہے کہ اب بھی وقت ہے سنبھل جائیں اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے اور عوام مہنگائی، اور قیادت کے رویے اور مجموعی حالات سے مایوس ہوکر خود ہی اس مُلک کو ختم کرنے کا اعلان کردیں۔ اگر حکمرانوں کو مُستقبل کی سمجھ نہیں آرہی تو وہ پاکستان سے کئی لاکھ لوگوں کی نقل مکانی پر ہی غور کرلیں انہیں آنے والے وقت کا اندازہ ہوجائے گا۔ (ختم شُد)