ایتھنز (حمید چوہدری ) بحیرہ لیبیا کے وسط میں اور کریٹ سے 79کلومیٹر جنوب میں واقع گیودوس یورپ کا سب سے جنوبی ساحل مقام ہے اور یونان میں ان چند جگہوں میں سے ایک تھا جہاں کچھ عرصہ پہلے تک آپ کو عریاں تیرنے اور دھوپ سینکنے کی آزادی تھی۔
سنہ 1983 کے یونانی قانون کے مطابق جس میں کبھی نظر ثانی نہیں کی گئی تھی، یونان میں عریاں ریزورٹس میں عریانیت کی سرکاری طور پر اجازت ہے جب کہ ملک میں غیر سرکاری عریاں ساحل اور مل بھی سکتے ہیں۔
اس جزیرہ کے واحد ایف ایم ریڈیو چینل ’گیودوس ایف ایم‘ کے سابق مالک ویسیلس تضونرس کا کہنا ہے کہ ’جو آزادی آپ کو گیودوس میں حاصل ہوتی ہیں وہ کہیں اور نہیں ملتی۔‘
ویسلیس 20 برس قبل کریٹ سے گیودوس منتقل ہوئے تھے۔ ساحل پر عریاں ہونے پر حالیہ پابندی کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ ’میں شاید اپنی باقی زندگی یہیں رہوں۔ میرا نہیں خیال میں نے جزیرہ پر کبھی کچھ ایسا دیکھا ہے۔‘
رواں برس جولائی میں میئر کے دفتر نے ساراکینیکو میں بہت سے سائن بورڈ آویزاں کیے جس سے مقامی لوگوں اور سیاحوں کے درمیان تنازع اور احتجاج شروع ہو گیا، جن میں سے زیادہ تر گیودوس کے تاریخی آزاد ماحول کی وجہ سے وہاں رہتے ہیں یا جاتے ہیں۔ تاہم، ایک مقامی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے گیودوس کی میئر لیلیان سٹیفانکی نے کہا کہ صرف سیاح ہی اس پابندی پر اعتراض کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مقامی باشندے برسوں سے ایسا چاہتے ہیں کہ کم از کم کوئی ایک ساحل تو ایسا ہو جہاں کوئی خاندان عریاں افراد کی موجودگی کے بغیر تیراکی کر سکے۔‘
البتہ جزیرے کے دیگر ساحل عریاں تیراکی کے لیے کھلے ہیں، بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ ساراکینیکو میں عریانیت پر حالیہ پابندی جلد ہی گیودوس کے دیگر ساحلوں پر بھی لاگو ہو سکتی ہے اور اس سے جزیرے کی آزاد روایت کو خطرہ ہو سکتا ہے۔
تیراکی کے علاوہ یہ جزیرہ اپنے ساحلوں پر مفت کیمپنگ کی اجازت دینے کے لیے بھی مشہور ہے جو یونان میں دوسری جگہوں پر ممنوع ہے۔ لباس کے بغیر گھومنے پھرنے کے حق کی وجہ سے ہی 1960 کی دہائی سے ہر موسم گرما میں ہزاروں افراد بڑی تعداد میں اس چھوٹے سے جزیرے کا رخ کرتے ہیں۔
گیودوس کے سابق میئر گیلی کالینیکو کا کہنا ہے کہ ’میں نے سنا ہے کہ جلد ہی جزیرے کے ایک بڑے رقبے پر مفت کیمپنگ پر بھی پابندی لگانے کا ارادہ ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ جزیرے کے خاتمے اور اس کی اقتصادی ترقی کے لیے نقصاندہ ہو گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جب میں میئر تھا، ہر سال ہمیں باضابطہ طور پر یہ فیصلہ کرنا پڑتا تھا کہ گیودوس میں عریانیت اور مفت کیمپنگ کی اجازت ہے۔۔۔ اسے کمیونٹی کونسل نے 1992 میں شروع کیا تھا تاکہ (عریاں نہانے والے) محفوظ محسوس کریں۔‘
آج بھی اس 30 مربع کلومیٹر جزیرے کی تاریخ اس کی ثقافتی روایت سے کہیں زیادہ گہری ہے۔ گیودوس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ یونانی افسانوی داستان کے مطابق اوگیگیا کا جزیرہ ہے جہاں ہومر کے مطابق اپسرا کیلیپسو نے اوڈیسیئس کو سات سال سے زیادہ عرصے تک قید رکھا اور حکمرانی کی جو اوڈیسیئس کو اپنا شوہر بنانا چاہتی تھی۔ (یہ جزیرہ صرف افسانوی کہانیوں میں موجود ہے)۔ 1930 کی دہائی میں اس کے دور دراز مقام نے اسے یونانی حکومت کے لیے مبینہ کمیونسٹوں کو جلاوطن کرنے کے لیے ایک مثالی جگہ بنا دیا تھا۔
لیکن 1960-70 کی دہائی میں ہپی کلچر کے عروج کے ساتھ گیودوس بوہیمن انداز میں چھٹیاں گزارنے کے لیے مقبول مقام بن گیا۔ کسی بھی مرکزی ملک سے دور واقع اور 1971 میں صرف 142 رہائشیوں کے ساتھ گیودوس جلد ہی متبادل طرز زندگی کی پناہ گاہ بن گیا۔ لوگ ساحل سمندر پر ڈیرے ڈالنے، آگ جلانے، اپنا کھانا خود پکانے اور برہنہ تیرنے کے لیے آنے لگے۔
،تصویر کا ذریعہFACEBOOK
ساراکینیکو کا دورہ کرنے سے ایک دن پہلے میں نے تیز دھوپ میں گیودوس کی دوسری جانب جنوب کی طرف دس کلومیٹر پیدل سفر کیا تاکہ ٹریپتی کے ساحل تک پہنچ سکوں جہاں ایک چٹان پر لکڑی کی کرسی کو نصب کیا ہے جو یورپ کے جنوبی ترین مقام کی نشاندہی کرتی ہے۔
یہ کرسی ان چند روسی سائنسدانوں نے بنائی تھی جو 1986 میں چرنوبل جوہری تباہی کے بعد جزیرے گیودوس پر پہنچے تھے۔ یہ افواہ ہے کہ سائنسدانوں کو تابکاری کا سامنا کرنا پڑا تھا اور سوویت ڈاکٹروں نے انھیں مشورہ دیا تھا کہ وہ ہر ممکن حد تک صاف ستھرے ماحول میں رہیں۔ یہاں اپنے قیام کے دوران انھوں نے یہ کرسی بنائی اور اسے یہاں نصب کیا تاکہ وہ تازہ ہوا کا سانس لے سکیں اور سمندر کی وسعتوں کو دیکھ سکیں۔
جیسے ہی میں اس عارضی مونومنٹ پر جھکی تو وہاں سمندر اپنی تمام تر وسعتوں کے ساتھ نیلے آسمان سے مل رہا تھا۔
تریپیٹی کے ساحل سے جس کا یونانی میں مطلب ’کھوکھلے‘ کے ہیں اور اس کا نام چونے کے پتھروں کی چٹانوں کی مناسبت سے لیا گیا ہے اور یہ مالٹا کی مشہور آزیور چٹان سے مشابہت رکھتی ہیں۔
اس ساحل پر جہاں کرسی رکھی گئی ہے اس کے قریب ترین گاؤں واتسیانا ہے۔ وہاں میری ملاقات نکوس لوجیاکیس سے ہوئی جو اپنے چار افراد کے خاندان کے ساتھ یورپ کے جنوبی ترین خطے کی باسی ہیں۔
انھوں نے آئسٹد کافی کا گھونٹ لیتے ہوئے کہا کہ ’میں نے اپنی ساری زندگی یہاں گزاری ہے، یہاں کا پہلا اور واحد گھر ہونے کی وجہ سے یہاں آنے والا ہر کوئی اسے دیکھتا ہے اور جیسا کہ اس علاقے میں کوئی مارکیٹ نہیں ہے تو ساحل سمندر سے آنے والے لوگ عموماً یہاں رکتے تھے اور پانی مانگتے تھے، اس لیے میں نے یہ چھوٹا کیفے، ریستوران کھولنے کا فیصلہ کیا۔‘
نو سال بعد اب لوجیاکیس کیفے کریٹا کی روایتی ڈش کاٹسیکاکی کے لیے مقبول ہے۔ اس روایتی پکوان میں بکرے کے گوشت کو پیاز کے ساتھ اور زیتون کے تیل میں پکایا جاتا ہے اور اسے فرنچ فرائز کے ساتھ کھانے کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں یہاں کی باورچی ہو اور گوشت بھی میری اپنی بکریوں کا ہوتا ہے۔‘ انھوں نے فخر سے بتایا کہ ’میں بکریاں پالتی ہوں۔‘
جب ان سے میئر کے حالیہ فیصلے یعنی عریاں نہانے پر پابندی کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ شاید پورے جزیرے کا ماحول تبدیل کر دے۔ انھوں نے بتایا کہ ’بہت سے سیاحوں نے اس سال اس وجہ سے اپنے دورے منسوخ کر دیے ہیں۔ ان لوگوں نے میرے خاندان کی کفالت کرنے میں میری مدد کی تھی، وہ اس جزیرے پر پیسہ خرچ کرتے تھے اور وہ کبھی میرے کیفے میں برہنہ نہیں آئے کیونکہ وہ میری عزت کرتے تھے۔‘
مقامی لوگوں کے مطابق، گذشتہ برسوں کے مقابلے اس موسم گرما میں گیودوس میں آنے والے نمایاں طور پر کم تھے اور جب میں نے دورہ کیا تو ساراکینیکو غیر معمولی طور پر خالی تھا۔
ویسیلس تضونرس نے مجھے بتایا کہ ’زیادہ تر لوگ جو عام طور پر ساراکینیکو میں ڈیرے ڈالتے تھے وہ دوسرے ساحلوں پر چلے گئے۔‘
ساراکینیکو وہ جگہ ہے جہاں گیووس میں زیادہ تر ہوٹل اور چھوٹے بازار واقع ہیں اور جہاں زیادہ تر سیاح عام طور پر جمع ہوتے ہیں۔ تاہم اس موسم گرما میں پابندی کے بعد یہ احتجاج کا منظر تھا، کیونکہ لوگ ’گیودوس وزیٹر انیشیٹو‘ کے اقدام کی حمایت کے لیے اکٹھے ہوئے جس نے سوشل میڈیا پر ’سیو گیودوس‘ کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ پوسٹ کرکے جزیرے کی ساکھ کے تحفظ کی مہم چلائی۔
سنہ 2021 کی مردم شماری کے مطابق گیودوس کی آبادی 208 افراد پر مشتمل ہے حالانکہ حقیقت میں تضونرس کا اندازہ ہے کہ وہاں صرف 70 افراد ہی رہائشی ہیں۔ یہاں سردیاں مشکل ہوتی ہیں۔ تیز ہواؤں کی وجہ سے کئی دنوں یا ہفتوں تک کشتیاں یہاں نہیں آ سکتی لیکن رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہ یہاں رہتے ہیں۔
ایلیفتھیریا ویلکاکی جو وٹسیانا میں لوجیاکیس کے خاندان کے بالکل شمال میں رہتی ہیں نے کہا کہ ’گرمیوں میں آپ لوگوں کو یہاں سے گزرتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن سردیوں میں یہاں تقریباً کوئی نہیں ہوتا۔‘
یہاں پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے دو پرانی بسیں چلتی ہیں جو جزیرے کی چند پکی اور بجری والی سڑکوں پر سفر کرتی ہیں۔ بادام کا دودھ اور گلوٹین سے پاک مصنوعات جیسے اجزا ابھی تک گیودوس تک نہیں پہنچے ہیں۔
ویلکاکی نے پرانے وقت کو یاد کرتے بتایا کہ ’یہاں تقریباً 25 برس قبل بجلی آئی تھی، ان پرانے وقتوں میں ہم سب کچھ اپنے ہاتھ سے کرتے تھے، یہاں کوئی کاریں نہیں تھیں ہمارے پاس صرف گدھے تھے اور ہم سب کام ان سے لیتے تھے۔‘
’اب ہمارے پاس بجلی کے لیے جنریٹر ہیں، یہ جزیرہ تبدیل ہو رہا ہے‘ مگر ان کا کہنا ہے کہ آج بھی اس جیسا کوئی نہیں اور انھوں نے مجھے اگلے موسم گرما میں دوبارہ آنے پر زور دیا۔
کوئی نہیں جانتا کہ اگلے موسم گرما تک گیودوس کے دیگر ساحلوں پر بھی عریانیت پر پابندی نافذ ہو گی یا نہیں یا ان پر مفت کیمپنگ کی اجازت دی جائے گی یا نہیں لیکن جیسا کہ کالینکیو نے کہا ہے کہ ’گیودوس میں کپڑے اور عریانیت ہمیشہ سے ایک دوسرے کے ساتھ رہے ہیں۔۔۔ (یہاں) آپ یہ محسوس کر سکتے ہیں کہ آپ پرواز کر سکتے ہیں۔ آپ اپنے پر پھیلا کر اڑ سکتے ہیں۔‘