اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) کے فوجیوں نے جمعے کے روز غزہ میں تین اسرائیلی یرغمالیوں کو سفید کپڑا لہرانے کے باوجود حماس کے جنگجو سمجھ کر گولیاں مار دیں۔
عراق اور افغانستان سمیت 13 آپریشنل دوروں پر خدمات انجام دینے والے برطانوی فوج کے ریٹائرڈ جنرل میجر جنرل چارلی ہربرٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’تین یرغمالیوں کو گولی مار کر ہلاک کرنا انتہائی افسوسناک اور تکیلف دہ ہے۔‘
اس واقعے کے بعد ایک بار پھر آئی ڈی ایف کی حکمت عملی اور امتیازی سلوک پر سوالات اٹھتے ہیں۔ اس سب کے بعد صرف تصور ہی کیا جا سکتا ہے کہ اسی طرح کے حالات میں کتنے معصوم شہری مارے جا چکے ہیں۔
آئی ڈی ایف کا کہنا ہے کہ وہ شہریوں کو نقصان پہنچانے سے بچنے کے لیے بہت احتیاط سے کام لے رہی ہے لیکن غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد میں ہولناک حد تک ہونے والے اضافے اور غزہ میں 18 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کی ہلاکت کے بعد اسرائیل پر اندھا دھند بمباری کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔
تاریخ میں یرغمالیوں سے منسلک تقریباً ہر معاملے میں اغوا کیے گئے افراد کو مسلح مداخلت کے بجائے ثالثی اور معاہدے کے ذریعے زندہ اور محفوظ رکھنے کا بہتر موقع ملتا ہے۔
یرغمالیوں سے متعلق سامنے آنے والے گذشتہ واقعات میں سے ایک وہ تھا جب یمن میں القاعدہ سے وابستہ جہادیوں نے 1998 میں 16 مغربی سیاحوں کو اغوا کر لیا تھا۔
برطانوی سفیر مغویوں کی رہائی کے لیے مذاکرات کے ذریعے دباؤ ڈالنے کے لیے وزیر داخلہ سے ملنے گئے تھے۔ انھیں بتایا گیا کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے، یمنی فوج پہلے ہی داخل ہو چکی ہے۔ اغوا کیے گئے افراد میں سے ایک چوتھائی فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک اور دیگر زخمی ہوئے تھے۔
مغربی اور اسرائیلی سپیشل فورسز نے یرغمالیوں کو بچانے کی ٹریننگ اور اس فن کو حاصل کرنے میں کئی دہائیاں صرف کی ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ ہمیشہ منصوبہ بندی کے مطابق نہیں ہوتا ہے۔
سنہ 1976 میں یوگنڈا کے شہر انٹیبے میں اسرائیل کے آپریشن تھنڈر بولٹ نے 106 یرغمالیوں میں سے 102 کو بازیاب کروایا تھا لیکن اسرائیلی کمانڈوز کے کمانڈر ہلاک ہو گئے تھے۔ آج ان کے بھائی بینیامن نیتن یاہو ملک کے وزیراعظم ہیں۔
سنہ 1980 میں برطانوی فوج کے انسدادِ دہشت گردی یونت سپیشل ایئر سروس (ایس اے ایس) کی جانب سے لندن میں ایرانی سفارت خانے کا محاصرہ شاید جدید دور کا سب سے اہم یرغمالیوں کی بازیابی کا آپریشن تھا، کیونکہ اس نے ٹی وی سکرینز کو اپنے قابو میں کیے رکھا۔
2009 میں جب ایک برطانوی صحافی سٹیفن فیرل کو طالبان نے افغانستان میں اغوا کیا تھا تو انھیں برطانوی سپیشل فورسز نے بازیاب کروایا تھا لیکن اس حملے کے نتیجے میں ان کا ایک امدادی کارکن، دو عام شہری اور ان کا افغان مترجم بھی ہلاک ہو گئے تھے۔
اگلے سال امریکی نیوی کی ایک ٹیم نے برطانوی امدادی کارکن لنڈا نورگروو کو بازیاب کرانے کی کوشش کی، جنھیں طالبان نے افغانستان میں اغوا کیا تھا۔ اس چھاپے میں ان کے اغوا کار مارے گئے لیکن وہ اپنے ایک ریسکیو اہلکار کی طرف سے پھینکے گئے دستی بم سے ہلاک ہو گئیں۔
سنہ 2012 میں نائجیریا میں ایک برطانوی اور ایک اطالوی یرغمالی کی رہائی کے لیے برطانوی سپیشل فورسز کا آپریشن اس وقت ناکام ہو گیا تھا جب نائجیریا کے ایک فوجی نے قبل از وقت اپنے ہتھیار سے فائرنگ کر دی تھی۔
یمن میں یرغمالیوں کے بہت سے مقدمات گذشتہ برسوں کے دوران پرامن طریقے سے حل کیے گئے ہیں لیکن عام طور پر طویل قبائلی مذاکرات کے ذریعے۔ آخرکار، بہت کچھ اغوا کاروں کے مطالبات اور ارادوں پر منحصر ہوتا ہے۔
عراق میں القاعدہ اور شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ (آئی ایس) کے معاملے میں جہادی اغوا کاروں کا اپنے امریکی اور برطانوی قیدیوں کو رہا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
اس کے بجائے وہ ان کا قتل لائیو سٹریم کر کے زیادہ سے زیادہ نفسیاتی اثرات مرتب کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ ان حالات میں، مسلح مداخلت، اگر ان کا پتا لگایا جا سکتا ہے تو یہ عام طور پر دستیاب واحد آپشن ہوتا ہے۔
حماس کہ بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ ایک ہائبرڈ کیس ہے۔ سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں ان کا حملہ ایک ظالمانہ اقدام تھا۔ اس کے باوجود وہ بعد میں 100 سے زیادہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے سودے بازی کرنے کو تیار ہیں۔
آج حماس کی قید میں موجود اسرائیلی یرغمالیوں کے رشتہ دار اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ پہلے ہی رہا ہونے والے تقریباً تمام افراد کسی بھی فوجی کارروائی سے نہیں بلکہ قطر اور مصر کی جانب سے حماس کے ساتھ مذاکرات اور ثالثی کے ذریعے اپنے گھروں میں واپس لوٹنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
اب تک صرف ایک اسرائیلی یرغمالی سپاہی اوری میگدیش کو طاقت کے ذریعے بازیاب کرایا جا سکا ہے۔
لیکن اغوا کاروں کے ساتھ معاہدہ کرنا، خاص طور پر جنھیں بہت سی حکومتیں دہشت گرد سمجھتی ہیں، نگلنے کے لیے ایک کڑوی گولی ہو سکتی ہے۔ یرغمال بنانے والے بدلے میں کچھ مانگیں گے۔
حماس کے معاملے میں اس کا مطلب اسرائیلی جیلوں سے بڑی تعداد میں قیدیوں کو رہا کرنا، لڑائی کو روکنا اور غزہ میں امداد کی مقدار میں نمایاں اضافہ کرنا ہے۔
جنرل ہربرٹ کہتے ہیں کہ ’یرغمالیوں کی واپسی صرف سفارتی ذرائع سے ہی ممکن ہے، غزہ میں اس مسئلے کا کوئی مؤثر فوجی حل فی الوقت دکھائی نہیں دے رہا۔