مشرق وسطیٰ کے لیے 2023 ء کیسا رہا

اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ نے مشرق وسطیٰ کے سیاسی منظر نامے میں نمایاں تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ فی الحال اسرائیل اور عرب ممالک میں تعلقات کی بہتری اور قربت کی کوششیں ماند پڑ گئی ہیں۔ لیکن کیا حالات اسی طرح رہیں گے؟

حالیہ چند برسوں میں عرب دنیا میں فلسطینیوں کو تقریباً فراموش کر دیا گیا تھا۔ کم از کم وہاں کے بہت سے رہنماؤں کے رویے اس امر کا ثبوت ہیں۔ سب سے بڑھ کر فلسطینیوں کے لیے ان کی اپنی ریاست کا قیام، بہت سے عرب حکمرانوں کے حساب کتاب میں شامل ہی نہیں۔

کئی دہائیوں سے جاری اس تنازعے کے دوران ایسا لگ رہا تھا، جیسے غزہ پٹی اور مغربی کنارے کے لوگوں کے ساتھ اعلان شدہ یکجہتی ختم ہو گئی ہو۔ کم از کم مشرق وسطیٰ کے خطے میں مغرب کے بہت سے شراکت دار ممالک کی توجہ اور ترجیحات آہستہ آہستہ تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ یعنی فلسطینیوں سے ہٹ کر واضح طور پر اسرائیل کی طرف۔


متحدہ عرب امارات (یو اے ای)، بحرین، مراکش اور سوڈان جیسے متنوع ممالک نے 2020 ء میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے معاہدوں پر اتفاق کرتے ہوئے نام نہاد ابراہیمی معاہدے پر دستخط کیے۔ سعودی عرب کے ساتھ مزید پُرامید مذاکرات کی بدولت، یہودی ریاست اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تنازعات کو ختم کرنے کے لیے اپنی راہ پر گامزن دکھائی دے رہی تھی۔

فلسطین اپنے ایجنڈا پر واپس

سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے دہشت گردانہ حملے نے بظاہر ایک چیز حاصل کی ہے، فلسطینیوں کا مدعا 2023ء کے دوران ایک بار پھر علاقائی اور بین الاقوامی ایجنڈے کا حصہ بن گیا۔ عالمی برادری کے سامنے اب یہ سوال ایک بار پھر اٹھ رہا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے تنازعے سے نمٹنے کے دوران 70 سال سے زیادہ عرصے سے حل طلب اس مسئلے سے کس طرح نمٹا جائے گا؟

یہ سوال بہت سی عرب ریاستوں کو بھی براہ راست متاثر کرتا ہے۔ ہیمبرگ میں جرمن انسٹی ٹیوٹ فار گلوبل اینڈ ایریا اسٹڈیز (جی آئی جی اے) کے مشرق وسطیٰ کے ماہر آندرے بانک کا کہنا ہے کہ عرب ریاستیں اکثر استحکام کے بارے میں اپنے خدشات کا شکار رہتی ہیں۔

مثال کے طور پر اردن اور مصر،اسرائیل کے براہ راست پڑوسیوں کے طور پر کئی دہائیاں پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ ایک امن معاہدہ کر چکے ہیں۔ اب دونوں ریاستوں کی حکومتوں کو خدشہ ہے کہ غزہ یا مغربی کنارے میں مزید کشیدگی فلسطینی آبادی کے زیادہ بے گھر ہونے کا باعث بنے گی اور اس کے نتیجے میں ان کے اپنے ملک میں بدامنی پھیلے گی۔
آندرے بانک کے بقول،”اس کا مطلب یہ ہے کہ مصر میں مظاہروں کی اجازت ہے لیکن قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں نہیں، جو سن 2011 میں جمہوریت کی تحریک کا مرکز تھا۔

مشرق وسطیٰ امور کے ماہر آندرے بانک کا مزید کہنا تھا،”اُردن کے دارالحکومت عمان کے کچھ حصوں میں فلسطینیوں کے حامیوں کو مظاہروں کی اجازت بھی ہے لیکن مغربی کنارے کی سرحد پر نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اس علاقے میں احتجاج کے با آسانی قابو سے باہر ہو جانے کے بارے میں بڑی تشویش پائی جاتی ہے۔‘‘

خلیجی ریاستوں کا کردار

اسرائیل اور حماس کی حالیہ جنگ کے بعد سے اب تک خلیجی ریاستوں میں شاید ہی کوئی احتجاجی مظاہرے ہوئے ہوں۔ آندرے بانک کا کہنا ہے کہ یہ صورت حال خلیجی ریاستوں کے ایک بڑے حصے میں پائی جاتی ہے۔ مشرق وسطیٰ امور کے اس ماہر کے مطابق متحدہ عرب امارات کم از کم ابتدائی طور پر اسرائیل کی طرف زیادہ جھکاؤ کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

خلیجی ریاست قطر کا دارالحکومت دوحہ، جو حماس کی قیادت کا ایک اہم مرکز سمجھا جاتا ہے، نے بھی کئی مواقع پر عوامی سطح پراسرائیل پر تنقید کی ہے۔ تاہم نومبر کے آخر میں جرمن اخبار فرانکفٹر الگیمائنے سائٹُنگ (ایف اے زیڈ) کے ساتھ ایک انٹرویو میں قطر کے سربراہ حکومت محمد بن عبدالرحمٰن الثانی نے اسرائیل کے ساتھ اپنے ملک کے تعلقات کو عملیت پسندانہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا،”ہم نے قطر میں بارہا کہا ہے کہ مسئلہ قبضے اور فلسطین کے سوال کا ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل اور قطر کے درمیان کوئی براہ راست مسئلہ نہیں ہے۔‘‘

الثانی نے کہا کہ اگر ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی کام نہیں کیا گیا تو یہ خطہ ہمیشہ کے لیے تشدد کی آگ میں پھنسا رہے گا۔ الثانی کا مزید کہنا تھا، ”اگر اس پر سنجیدگی سے توجہ دی جاتی تو ہمیں اسرائیل سے مسئلہ کیوں ہوتا؟‘‘

مشترکہ مفادات

ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ موجودہ غزہ جنگ کا کیا ہوگا، یہ کب اور کیسے ختم ہو گی؟ کیا اس کے دوسرے ممالک یا علاقوں میں پھیلنے کا خطرہ ہے؟ آخر مزید کتنی جانیں ضائع ہوں گی؟

ابھی تک ماہرین اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ مشرق وسطیٰ کی جنگ اور غزہ پٹی میں ہونے والی متعدد ہلاکتوں کی وجہ سے اسرائیل اور عرب دنیا کے درمیان تعلقات مستقل طور پر ختم ہو جائیں گے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ عرب حکمرانوں نے اب تک بہت سی عرب آبادیوں میں وسیع پیمانے پر اسرائیل مخالف جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے بنیادی طور پر صرف ”زبانی ہتھیاروں‘‘ کا استعمال کیا ہے۔

جرمنی کی ‘ہائیڈل برگ یونیورسٹی آف جیوش اسٹڈیز‘ سے تعلق رکھنے والے مشرق وسطیٰ کے ماہر یوہانس بیکے اس سلسلے میں ایک مثال دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ”مجھے یہ تاثر ملا ہے کہ نومبر کے شروع میں ریاض منعقدہ عرب مسلم ریاستوں کے سربراہی اجلاس میں متوقع بیان بازی کا مظاہرہ کیا گیا لیکن پھر یہ معاملہ بس یہیں تک رک گیا۔‘

مظاہروں اور جنگ کے پھیلنے کے خطرات

عرب اور اسلامی دنیا میں فلسطین کے حق میں جاری مظاہرے اس جنگ کے پھیلنے کی صلاحیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عرب حکومتوں کی ایک بڑی تعداد ممکنہ طور پر اسے جلد از جلد اور مستقل طور پر ختم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے، اس سے پہلے کہ احتجاجی مظاہروں سے ان کے اپنے استحکام کو خطرہ لاحق ہو۔

اس پس منظر میں اسرائیل کے ساتھ میل جول صرف اسی صورت میں دوبارہ شروع ہو سکتا ہے، جب ہتھیار خاموش ہو جائیں اور فلسطینیوں کو بھی فائدہ پہنچے، مثال کے طور پر دو ریاستی حل کے نئے ایڈیشن کی صورت میں۔

قطر کے وزیر اعظم جرمن اخبار FAZ کے ساتھ ایک انٹرویو میں پہلے ہی زور دیتے ہوئے کہہ چکے ہیں،”فلسطین کے سوال کو اب مزید نہیں دبایا جا سکتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں