جبری گمشدگیوں کے معاملے کو ہمیشہ کے لیے حل کیا جانا چاہیے،سپریم کورٹ جبری گمشدگی پر سپریم کورٹ کے ریمارکس: قانونی امکانات کیا ہیں ؟

قانونی ماہرین، سیاست دانوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے اس بیان کا خیر مقدم کیا ہے جس میں انہوں نے یہ عندیہ دیا ہے کہ جبری گمشدگیوں کے معاملے کو ہمیشہ کے لیے حل کیا جانا چاہیے۔

یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بلوچ گمشدہ افراد کے لواحقین اسلام آباد میں دھرنے دیے ہوئے ہیں اور نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکٹر انہیں سخت ہدف تنقید بنارہے ہیں۔ تاہم کئی حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا جب کہ دوسری طرف قانونی ماہرین اس بات پر بھی بحث کر رہے ہیں کہ قانونی اور عملی طور پر کیا کچھ ممکن ہے؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے یہ بیان مختلف افراد کی طرف سے جبری گمشدگیوں کے خلاف دائر کی جانے والی پٹیشنز کی سماعت کے دوران دیا، جو تین رکنی بینچ کررہی ہے۔ اس کی سربراہی قاضی فائز عیسی کر رہے ہیں جبکہ جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس محمد علی مظہر اس بینچ کے دو دیگر اراکین ہیں۔

چیف جسٹس نے کیا کہا؟
جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ یہ ملک ہم سب کا ہے اور ان کا بھی جن کا نقطہ نظر مختلف ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس معاملے کو صرف اسی وقت حل کیا جا سکتا ہے جب ہم سب مل کر کام کریں اور ذمہ داری قبول کریں۔ ان کا کہنا تھا،”ہمیں پاکستان کو مضبوط بنانا چاہیے اور یہ کہ اگر پاکستان اندر سے مضبوط ہے تو کوئی بیرونی قوت اسے چھو نہیں سکتی۔‘‘
واضح رہے کہ جبری گمشدگیوں کے حوالے سے کئی افراد بشمول سابق سینیٹر چودھری اعتزاز احسن نے پٹیشنز دائر کی ہیں۔

ریمارکس کا خیر مقدم

اس مقدمے میں چودھری اعتزاز احسن کے وکیل شعیب شاہین نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”چیف جسٹس کا بیان حوصلہ افزا ہے۔ ہمارے کئی رہنماؤں کو اغوا کیا گیا جن میں شیخ رشید، فرخ حبیب اور دوسرے شامل ہیں اور ان سے وفاداری تبدیل کرائی گئی۔ ہماری استدعا ہے کہ سارے معاملے کی تحقیقات کی جائے اور ذمہ داروں کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔

شعیب شاہین کے مطابق ان کی پٹیشن میں بلوچ، پختون اور دوسرے جبری طور پہ گمشدہ کیے گئے افراد کا بھی ذکر ہے۔ ”ہمیں امید ہے کہ سپریم کورٹ اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکالے گی۔‘‘

جبری طور پر گمشدہ افراد کی برآمدگی کے حوالے سے جدوجہد کرنے والی آمنہ مسعود جنجوعہ کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کے اس بیان نے امید کی ایک کرن پیدا کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گمشدہ افراد کے حوالے سے بننے والے کمیشن سے کوئی امید نہیں ہے اور لواحقین نے اس کے چیئرمین پہ بہت زیادہ اعتراضات کیے ہیں۔‘‘

آمنہ مسعود جنجوعہ کے مطابق اب چیف جسٹس کے بیان سے گمشدہ افراد کے لواحقین میں ایک حوصلہ پیدا ہوا ہے۔ ” ہمیں امید ہے کہ سپریم کورٹ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے گا اور برسوں سے چلنے والے اس مسئلے کا ایک ایسا حل نکالے گا جس سے گمشدہ افراد کے لواحقین کی مشکلات کم ہوں اور جبری طور پہ گمشدہ افراد کی بازیابی ممکن ہو سکے۔

قانونی طور پر کیا ممکن ہے؟

قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ قانونی طور پہ اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔

معروف قانون داں ریاض حسین بلوچ کا کہنا ہے کہ اگر سپریم کورٹ چاہے تو سب کچھ کر سکتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”پاکستان کے آئین کے مطابق ہر ادارہسپریم کورٹ کے حکم کی بجا آوری کرنے کا پابند ہے۔ عدالت انہیں اپنے سامنے یا دوسری عدالتوں کے سامنے پیش ہونے کا حکم دے سکتی ہے اور اس میں ملوث افراد کو سزا بھی دلواسکتی ہے۔‘‘

ریاض حسین بلوچ کے مطابق پاکستان کے آئین کی آرٹیکلز 186 اور 199 کے تحت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کو بنیادی حقوق کے حوالے سے بہت اختیارات حاصل ہیں۔

آرمی ایکٹ

خیال کیا جاتا ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت ملزمان کے حقوق محدود ہیں لیکن راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے معروف وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت بھی اگر کسی کو گرفتار کیا گیا ہے تو قانونی طور پر گرفتار کرنے والے اس بات کے پابند ہیں کہ وہ یا تو 24 گھنٹے میں ملزم کو چارج شیٹ دیں یا کسی تاخیر کی صورت میں تحریری وجوہات دیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”آرمی ایکٹ کے مطابق 24 گھنٹے کے اندر ملزم کو چارج شیٹ دینا ضروری ہے اور تاخیر کی صورت میں کمانڈنگ آفیسر اور دوسرے افسران تحریری وجوہات بیان کرنے کے پابند ہیں۔ ملزمان کو متعلقہ اتھارٹیز کے سامنے پیش کرنا بھی ضروری ہے۔

کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیمکے مطابق اگر ٹرائل آٹھ دن میں شروع نہیں ہوتا تو اس کی بھی وجوہات بتانی پڑیں گی اور اگر یہ 32 دن کے اندر شروع نہیں ہوتا تو ملزم کو ممکنہ طور پر رہا بھی کیا جا سکتا ہے۔

اس قانونی ماہر کے مطابق عموماً گرفتاری سنگین مقدمات میں ہوتی ہے۔ ” اگر کوئی ملزم قتل، بغاوت یا سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی میں ملوث ہے تو اسے گرفتار کیا جا سکتا ہے بصورت دیگر اسے یونٹ کے اندر ہی بند کیا جا سکتا ہے جس کو اوپن گرفتاری کہتے ہیں۔‘‘

عملی مشکلات

تاہم ان افراد کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ اتنا آسان نہیں ہوگا۔ شیعب شاہین کے مطابق یہ ایک مشکل ٹاسک ہوگا۔ ریاض حسین بلوچ کے مطابق طاقت ور حلقوں کے پاس بہت سارے راستے ہیں۔ ”اگر ایجنسیاں یہ تسلیم کرتی ہیں کہ انہوں نے بندے اٹھائے ہیں، تو یہ غیر قانونی طور پر حراست کہلائے گی، جس کی سزا دو سال ہے۔ تو ان کے لیے اعتراف کرنا مشکل ہوگا۔‘‘

آمنہ مسعود جنجوعہ کا کہنا ہے کہ یہ ایک دیرینہ مسئلہ ہے۔ وہ کہتی ہیں، ”میرے خیال سے اعتماد کی بحالی کے لیے کم از کم چیئرمین مسنگ پرسنز کمیشن کو ہٹایا جائے۔ یہ ممکنہ طور پر پہلا قدم ثابت ہوسکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں