پاکستان کی حکومتوں کی جانب سے مختلف شعبوں میں مہارتیں سکھانے کے اقدامات اور ووکیشنل ٹریننگ کے مفت مواقع کے باوجود بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی بڑی تعداد مزدور طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔
رواں سال بیرون ملک جانے والوں میں سے بھی 62 فیصد مزدور اور ڈرائیور ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں ڈاکٹرز، انجینیئرز، فارماسسٹ، مینجرز اور نرسز کی تعداد بہت کم ہے۔
بیورو آف امیگریشن کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2023 کے پہلے سات ماہ میں چار لاکھ پچاس ہزار 110 پاکستانی بسلسلہ روزگار بیرون ملک بالخصوص خلیجی ممالک میں گئے۔
بیرون ملک جانے والوں کو ان کے پیشے اور مہارتوں کے لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان سے جانے والی سب سے بڑی تعداد مزدوروں کی ہے جو ایک لاکھ 92 ہزار سے زائد ہیں جبکہ دوسرے نمبر بیرون ملک جانے والے ڈرائیورز ہیں جو کم و بیش ایک لاکھ کے قریب ہیں۔
رواں سال بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کے لحاظ سے حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ بیرون ملک جانے والوں میں مینجرز مستریوں کو پیچھے چھوڑ کر تیسرے نمبر پر آ گئے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق رواں سال جولائی تک 23 ہزار سے زائد مینجرز بیرون ملک روزگار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جبکہ سال 2022 میں پورے سال میں یہ تعداد 18 ہزار تھی۔
ان کے مقابلے میں رواں سال بیرون ملک جانے والے مستریوں کی تعداد 13 ہزار سے زائد رہی جبکہ گذشتہ سال یہ تعداد 35 ہزار کے قریب تھی۔
اس کے علاوہ بیرون ملک جانے والے زرعی ماہرین اور نرسوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ رواں سال پانچ ہزار آٹھ سے زائد زرعی ماہر بیرون ملک گئے جبکہ گزشتہ پورے سال میں یہ تعداد تین ہزار ایک سو دس رہی۔
اسی طرح رواں سال 2378 نرسیں بھی بیرون ملک صحت کے شعبہ میں خدمات سرانجام دینے کے لیے منتخب ہوئیں جبکہ گذشتہ پورے سال میں یہ تعداد 1768 رہی تھی۔
اس کے باوجود جہاں پاکستان سے بیرون ملک جانے والے مزدور طبقے کی تعداد لاکھوں میں ہے وہیں چار ہزار اکاؤنٹنٹ، چار ہزار سات سو انجینئرز، 88 فارماسسٹ، 14 ہزار سیلز مین، 221 سرویئر اور 764 استاد شامل ہیں۔
اس کے علاوہ 200 آرٹسٹ، سات ہزار بڑھئی، 5000 کلرک، پانچ ہزار ڈیزائنر، پانچ ہزار خانسامے، 410 سٹور کیپر اور 9 ہزار الیکٹریشن بھی بیرون ملک ملازمت حاصل کر سکے ہیں۔
وزارت اوورسیز پاکستانیز کا موقف ہے کہ تکنیکی تعلیم حاصل کرنے والوں اور وزارت کے درمیان باہمی رابطے کے فقدان کے باعث بامہارت ورکرز کی بڑی تعداد مقامی مارکیٹ میں کھپ جاتی ہے اور انھیں بیرون ملک موجود مواقع سے آگاہی ہی نہیں ملتی۔
کئی برس سے یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ ایسے تمام ادارے وزارت اوورسیز کو سونپ دیے جائیں لیکن ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔ اسی وجہ سے بیرون ملک جانے والوں کی بڑی تعداد مزدرو بطقے پر مشتمل ہے۔
اس حوالے سے وزارت ٹیکنیکل ایجوکیشن کے حکام کا کہنا ہے کہ حکومت اس بات سے آگاہ ہے کہ عالمی لیبر مارکیٹ میں پاکستان سے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ ورکرز کی کمی ہے۔
’یہی وجہ ہے کہ اس وقت بیرون ملک مقیم ہمارے ورکرز دوسرے ممالک کے بامہارت ورکرز کے مقابلے میں تین گنا کم کما رہے ہیں۔ اگر ہم بامہارت ورکرز بھیجنا شروع کر دیں تو پاکستان کی ترسیلات زر میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔‘
حکام کے مطابق اس سلسلے میں حکومت نے کئی ایک اقدامات بھی کیے اور ایک باضابطہ پالیسی بھی ترتیب دے رکھی ہے جس کے تحت بیرون ملک ملازمتوں کے حصول کے لیے پاکستان کے بامہارت ورکرز کا ڈیٹا محفوظ کیا جائے گا جسے بیرون ملک ملازمتوں کے لیے بروئے کار لایا جا سکے گا۔ اس لسلے میں بامہارت ورکرز کی کیریر کونسلنگ بھی کی جائے گی۔
مختلف ممالک میں مہارتوں کی طلب کو سامنے رکھتے ہوئے ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ قائم کیے جائیں گے اور مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے مطابق بامہارت ورکرز تیار کیے جائیں گے۔ اس سلسلے میں پاکستان کے ویلفیئر اور کمرشل اتاشیوں کو بھی اہداف سونپے جائیں گے۔
حکام کے مطابق پاکستان میں اس وقت ووکیشنل ٹریننگ کے 3740 ادارے کام کر رہے ہیں جن کی تعداد میں نہ صرف اضافہ کیا جائے گا بلکہ ان کے کورسز کو نئے سرے سے ترتیب دے کر عالمی معیار کے مطابق بنایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی نیشنل یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے جو مہارتوں کے شعبہ میں ایک انقلابی اضافہ ثابت ہو گی۔