اسرائیلی ڈیفنس فورسز نے غزہ میں تین ماہ سے جاری جنگ میں پانچ سو سے زائد فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔
گزشتہ برس سات اکتوبر کو حماس کے خلاف غزہ کی ساحلی پٹی میں شروع کی گئی جنگ میں ہلاک ہونے والے فوج کے 510 افسران اور اہلکاروں کے نام جاری کیے گئے ہیں جو دوران جنگ ہلاک ہوئے ہیں۔
ہلاک ہونے والے فوجیوں میں 176 وہ اہلکار بھی شامل ہیں جو غزہ میں زمینی کارروائی کے دوران ہلاک ہوئے۔
اسرائیلی اخبار ‘ٹائمز آف اسرائیل’ کے مطابق گزشتہ تین ماہ کے دوران اسرائیل میں پولیس کے 57 افسران اور اہلکار بھی ہلاک ہو چکے ہیں جن کی فہرست جاری کی گئی ہے۔ یہ پولیس حکام بھی عسکریت پسندوں سے جنگ میں نشانہ بنے ہیں۔
اس کے علاوہ فہرست میں یروشلم میں حملے میں ہلاک ہونے والے ایک افسر کے علاوہ مغربی کنارے میں عسکریت پسندوں کے ساتھ جھڑپوں میں مارے جانے والے دو افسران کے نام بھی شامل ہیں۔
حماس نے گزشتہ برس سات اکتوبر اسرائیل کے جنوبی علاقوں پر حملہ کیا تھا۔ اسرائیلی حکام کے مطابق حماس کے حملے میں لگ بھگ 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں عام شہری اور سیکیورٹی اہلکار شامل تھے۔ حماس کے جنگجوؤں نے رہائشی علاقوں اور فوج کی چھاؤنیوں میں گھسنے، سڑکوں اور گھروں میں لوگوں کو نشانہ بنایا تھا جب کہ اسرائیلی علاقوں پر ہزاروں راکٹ فائر کیے تھے۔
اس کے علاوہ حماس کے جنگجو لگ بھگ 240 شہریوں اور فوجیوں کو یرغمال بنا کر غزہ لے گئے تھے۔ نومبر میں عارضی جنگ بندی کے دوران سات دن میں حماس نے 110 کے قریب یرغمال افراد کو رہا کر دیا تھا۔ اس دوران عارضی جنگ بندی معاہدے کے تحت اسرائیلی جیلوں سے 240 فلسطینی قیدی رہا ہوئے تھے۔
عسکریت پسند تنظیم ‘حزب اللہ’ اور فلسطینی گروہ ’اسلامی جہاد‘ نے بھی 9 فوجیوں کو جنگ شروع ہونے کے بعد لبنان کی سرحد پر مارنے کے دعوے کیے ہیں۔ اس کے علاوہ دو فوجی مغربی کنارے میں بھی حملوں میں مارے گئے۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری کردہ فہرست میں مغربی کنارے میں اپنی ہی گولی سے ہلاک ہونے والے فوجی، لبنان کی سرحد پر بارود میں خرابی سے ہلاک ہونے والے، شمالی اسرائیلی میں ٹینک حادثے میں مارے جانے ہونے والے فوجیوں کی ہلاکت کے علاوہ ان واقعات کی تفصیلات بھی جاری کی گئی ہیں جن کا تعلق براہِ راست جنگ سے نہیں ہے۔
اسرائیل کے ہلاک سیکیورٹی اہلکاروں کی یہ فہرست ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے ہفتے کو ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان سے استنبول میں ملاقات کے دوران خطے کی صورتِ حال پر بات چیت کی ہے۔
بلنکن کے یورپ اور مشرقِ وسطی کے تازہ ترین دورے کا مقصد اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کو سفارتی کوششوں کے ذریعے خطے میں وسیع تنازع کی شکل اختیار کرنے سے روکنا ہے۔
وہ اس دورے میں اسرائیل، مغربی کنارے، یونان، اردن، قطر، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور مصر میں حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔
سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے سے شروع ہونے والی جنگ کے دوران بلنکن کا یہ خطے کا چوتھا دورہ ہے۔
دوسری جانب لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ نے بھی اسرائیل پر حملے تیز کر دیے ہیں۔ ان حملوں کے حوالے سے حزب اللہ نے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ اس نے اسرائیل کے ایک فوجی اڈے پر 60 راکٹ داغے ہیں جو حماس کے رہنما صالح العاروری کے قتل کا ابتدائی ردِعمل ہے۔
العاروری حماس کے ڈپٹی سیاسی رہنما تھے جنہیں دو جنوری کو لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔
نظریاتی طور پر حماس کے قریب سمجھی جانے والی حزب اللہ نے اس ہلاکت کا بدلہ لینے کا اعلان کیا تھا۔
تین ماہ سے جاری اسرائیل اور حماس کی جنگ کے دوران پیش آنے والے اس واقعے کے حوالے سے حزب اللہ کا الزام ہے کہ العاروری کے قتل کا ذمہ دار اسرائیل ہے جب کہ تل ابیب نے اس سلسلے میں کوئی ذمہ داری قبول نہیں کی۔