یورپی یونین (ای یو) کی سفیر رائنا کیونکا نے کراچی کی تاجر برادری پر زور دیا ہے کہ وہ صرف ٹیکسٹائل کی برآمدات تک محدود رہنے کے بجائے یورپی یونین کو اپنی برآمدات کے دائرہ کار کو وسیع اور متنوع بنائے تاکہ پاکستان یورپی یونین کے جی ایس پی پلس اسٹیٹس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاسکے جسے حال ہی میں 2027 تک مزید 4 سال کے لیے بڑھا دیا گیا ہے۔
جی ایس پی پلس پاکستان کی معیشت کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس سے فائدہ اٹھانے والے نہ صرف ٹیکسٹائل کے پروڈیوسرز ہیں بلکہ وہ تمام لوگ جو ٹیکسٹائل فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں۔جی ایس پی پلس گزشتہ 10 سالوں کے دوران معاشی لحاظ سے انتہائی مثبت اور مفید رہا ہے کیونکہ اس نے یورپی یونین کو پاکستان کی برآمدات میں 108 فیصد اضافہ کرنے میں مدد کی ہے جبکہ اس پروگرام کے آغاز سے یورپی یونین کی )درآمدات میں بھی 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے دورے کے موقع پر اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر کے سی سی آئی کے صدر افتخار احمد شیخ، سینئر نائب صدر الطاف اے غفار، نائب صدر تنویر احمد باری، چیئرمین ڈپلومیٹک مشنز اینڈ ایمبیسیز لائژن سب کمیٹی فاروق افضل، ٹریڈ ایڈوائزر یورپی یونین وفد برائے پاکستان حسنین اے افتخار اور کے سی سی آئی کی منیجنگ کمیٹی کے اراکین بھی موجود تھے۔
رائنا کیونکا نے کہا کہ پاکستان کے لیے یورپی یونین کا جی ایس پی پلس قوائد کے فریم ورک میں بغیر کسی تبدیلی کے بڑھا دیا گیا ہے اس لیے 2027 تک سب کچھ ویسا ہی رہے گا۔ہمارے یہاں بھی جون 2024 میں انتخابات ہیں جس کا مطلب ہے کہ پارلیمنٹ اور یورپی یونین کے کمیشن میں سیاسی تبدیلی آئے گی۔ایک بار جب سب کچھ طے ہو جائے گا ہمیں توقع ہے کہ نئی پارلیمنٹ اور یورپی یونین کے رکن ممالک کی کونسل ایک بار پھر پاکستان کے ساتھ جی ایس پی پلس کے لیے ایک نئی ہدایت پر مذاکرات شروع کریں گے جو پچھلے سال نہ ہو سکا۔
اگرچہ جی ایس پی پلس میں مزید چار سال کی توسیع کی گئی ہے لیکن اگریورپی یونین نئی ہدایت لے کر آتی ہے تو یہ 2027 سے پہلے ہی نافذالعمل ہوجائے گی۔یورپی یونین کی سفیر نے جی ایس پی پلس کے تحت جواہرات اور زیورات، سیاحت ، دستکاری اور آٹو پارٹس وغیرہ کو ممکنہ شعبوں کے طور پر شناخت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی 28 فیصد برآمدات یورپی سنگل مارکیٹ میں آتی ہیں جو کہ ایک اچھی تعداد ہے لیکن یہ بہت بڑی ہو سکتی ہے جو کہ اسلام آباد میں یورپی یونین کے وفد کی اہم ترجیحات میں سے ایک ہے جس پر کام کیا جارہا ہے تاکہ جی ایس پی پلس کے بہتر استعمال کے ذریعے پاکستان کی برآمدات کو بڑھایا جا سکے اور برآمدات کو متنوع بنا کر ویلیو ایڈیشن میں سرمایہ کاری کر کے ای یو مارکیٹ تک بہتر رسائی کے لیے نئی ٹیکنالوجیز اور آئی ٹی سلوشنز کا استعمال کیا جا سکے اور ساتھ ہی ایس ایم ایزکو بھی آگے لایا جا سکے جو کسی بھی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد میں یورپی یونین کا وفد بھی پاکستان اور یورپی یونین کے بزنس ٹو بزنس تعلقات کو فروغ دینے کے لیے ایک پلیٹ فارم قائم کرنا چاہتا ہے جس سے ایس ایم ایز کو بھی یورپی یونین میں مختلف قسم کے کاروبار کے ساتھ اچھے روابط بنانے میں مدد مل سکتی ہے اور بالآخر پاکستان میں ایس ایم ایز بھی جی ایس پی پلس سے فائدہ اٹھاسکیں گی۔
پاکستان کے جواہرات اور زیورات کے شعبے میں بہت زیادہ صلاحیت ہے اس لیے متعلقہ تاجروں کو چاہیے کہ وہ اس کی قدر و قیمت میں اضافہ کریں اور خام مال کو خطے میں برآمد کرکے کسی اور کو کٹنگز، پالش اور جیولری بنانے کا کام دینے کرنے کے بجائے یہ کام خود کریں اور تیار کردہ بہترین زیورات وجواہرات کو خود یورپ برآمد کریں۔قبل ازیں کے سی سی آئی کے صدر افتخار احمد شیخ نے یورپی یونین کے سفیر کا خیرمقدم کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ پاکستان کا ایک بڑا تجارتی پارٹنر ہونے کے ساتھ ساتھ یہ امر واقعی حوصلہ افزا ہے کہ یورپی یونین عالمی معیشت میں پاکستان کے انضمام کی حمایت کرتا ہے جبکہ پاکستان یورپی یونین کے ساتھ امن کی ترقی و خوشحالی کے لیے پائیدار مستقبل پر مبنی اور جامع شراکت داری کو مضبوط کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
انہوں نے کہا کہ یورپی یونین پاکستان کے لیے سب سے بڑا برآمدی مقام رہا ہے جہاں پاکستان کی تجارت مالی سال 2023میں 8.4ارب رہی جبکہ امریکہ 5.93 ارب ڈالر تجارت سے دوسرے اور چین 2.02 ارب ڈالر سے تیسرے نمبر پر رہا۔ پاکستان کی یورپی یونین کو برآمدات میں ٹیکسٹائل سیکٹر کا غلبہ ہے جو پاکستان کی برآمدات میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔گزشتہ سال پاکستان کی ٹیکسٹائل کی مجموعی برآمدات 16.50 ارب ڈالر رہی جو مجموعی برآمدات کا تقریباً 60 فیصد ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ پاکستان میں معاشی بحالی کے سفر کے دوران پائیدار پالیسیوں کی ضرورت ہے جو یورپی یونین کے جی ایس پی پلس کی مکمل صلاحیت سے فائدہ اٹھانے اور انتہائی ضروری غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی راہ بھی yہموار کرے گا۔پاکستان اور یورپی یونین کو یورپی یونین کی مارکیٹ میں پاکستانی مصنوعات کی رسائی کو بہتر بنانے کے طریقوں پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔
تجارتی رکاوٹوں کو دور کرنا، برآمدی تنوع پر تعاون کو فروغ دینا، ہموار تجارتی طریقوں کو اپنانا بہت ضروری ہے تاکہ بین الاقوامی معیارات کی تعمیل کو یقینی بنایا جا سکے۔افتخار شیخ نے ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے تبادلے اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی حوصلہ افزائی کے لیے اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستانی کاروباری اداروں کی مسابقت کو بڑھانے کے لیے مہارت اور صلاحیت کو بہتر بنانے کے اقدامات کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
انہوں نے یورپی یونین کے سفیر سے کے سی سی آئی کی مائی کرا چی بین الاقوامی نمائش میں شرکت کے لیے ایک تجارتی وفد کی شرکت یقینی بنانے کی بھی درخواست کی۔ یہ نمائش اگست 2024 میں منعقد ہوگی جس میں ہمیشہ بین الاقوامی اور قومی نمائش کنندگان کی جانب سے بھرپور شرکت ہوتی ہے۔