گھریلو تشدد کی شکار خواتین کو یورپ میں پناہ گزین کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے گا ،یورپی عدالت انصاف

یہ عدالتی فیصلہ ان خواتین کے لیے بین الاقوامی تحفظ کی ضمانت دیتا ہے جنہیں ان کے وطن میں ”جسمانی یا ذہنی تشدد‘‘ کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور وہ ”قتل کیے جانے کے حقیقی خطرے‘‘ کا سامنا کرتی ہیں۔
لکسمبرگ میں قائم یورپی عدالت انصاف (ای سی جے) نے منگل کوجاری کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ دنیا بھر میں گھریلو تشدد کا شکار ہونے والی ایسی خواتین جن کی جان کو خطرات لاحق ہیں، کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنے کی راہ ہموار کر دی ہے۔

ای سی جی کے مطابق ”عدالت جسمانی یا ذہنی تشدد‘‘ کا نشانہ بننے والی خواتین کے ساتھ ساتھ قتل ہونے کے حقیقی خطرے کا سامنا کرنے والی خواتین کے لیے بین الاقوامی تحفظ کی ضمانت دیتی ہے۔
عدالتی فیصلے کا پس منظر
منگل کو ای سی جے کی طرف سے کیے گئے اس اہم فیصلے کے پیچھے دراصل بلغاریہ کی عدالت کی طرف سے یورپی عدالت انصاف کو بھجوایا جانے والا ایک مقدمہ ہے۔
ایک کرد نژاد ترک خاتون نے بلغاریہ کی عدالت میں بین الاقوامی تحفظ فراہم کرنے کا مقدمہ دائر کیا تھا۔ اس خاتون کا کہنا تھاکہ اگر اسے ترکی واپس جانا پڑا تو اسے جان کا خطرہ لاحق ہوگا۔
اس خاتون کا یہ کہنا تھا کہ اسے اس کے گھر والوں نے زبردستی شادی کرنے پر مجبور کیا اور اس کے شوہر نے اسے مارا پیٹا اور دھمکیاں دیں جس کے سبب اُس نے اپنے شوہرسے طلاق لے لی۔


یورپی عدالت انصاف کے مطابق وہ خواتین، جنہیں ان کے آبائی ملک میں ان کی جنس کی وجہ سے جسمانی یا ذہنی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ پناہ گزین کا درجہ حاصل کرنے کی اہل ہیں۔ مزید برآں جنسی اور گھریلو تشدد کا سامنا کرنے والی خواتین کو بھی یورپی ممالک میں پناہ گزین کی حیثیت حاصل ہو سکتی ہے۔
خواتین کے لیے تحفظ کے دیگر مواقع
یورپی عدالت انصاف نے ایسی خواتین کے لیے بھی کچھ مراعات کا اعلان کیا ہے، جو پناہ گزین کا درجہ حاصل کرنے کی اہل تو نہیں لیکن مخصوص حالات کی وجہ سے انہیں بھی تحفظ اور مدد کی ضرورت ہے۔
عدالتی بیان کے مطابق ایسی خواتین جو پناہ گزین کا اسٹیٹس حاصل کرنے کی شرائط پر پوری نہیں اترتیں وہ ” سبسیڈری پروٹیکشن‘‘ یعنی ایک خاص قسم یا ثانوی درجے کا تحفظ حاصل کرنے کی مجاز ہیں۔
پناہ کی متلاشی ایسی خواتین کو اُسی ملک میں رہنے کی اجازت دی جائے گی، جہاں انہوں نے پہلی بار پہنچنے کے بعد تحفظ کی درخواست درج کروائی تھی۔
تاہم یہ خواتین یورپی یونین کے کسی دوسرے ملک کا سفر نہیں کرسکتیں۔
ای سی جے کے بیان کے مطابق، ” خواتین اُس صورت میں سبسیڈری پروٹیکشن کے حصول کی اہل ہوں گی جب ثقافتی، مذہبی یا روایتی اصولوں کی مبینہ خلاف ورزی کی وجہ سے ان کے خاندان یا برادری کے کسی فرد کے ذریعہ انہیں قتل کیے جانے یا تشدد کی کارروائیوں کا نشانہ بننے کا حقیقی خطرہ لاحق ہو۔

ای سی جے نے واضح کیا کہ خواتین پر ان کی جنس کی بنیاد پر ظلم و ستم دراصل جبر و تشدد اور ایزا رسائی کے زمرے میں آتا ہے اور اس تعریف کے تناظر میں ایسی خواتین ایک طرح کا سماجی گروپ بھی ہیں۔ ای سی جے نے تاہم یہ نہیں بتایا کہ آیا بین الاقوامی تحفظ کے لیے درخواست دہندہ اس ترک خاتون کو پناہ گزین کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے یا انہیں سبسیڈری پروٹیکشن ملنی چاہیے۔
اُدھر بلغاریہ کی عدالت کو اب اس ترک خاتون کے مقدمے کا فیصلہ یورپی عدالت انصاف کے فیصلے کی روشنی میں کرنا ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں