محمد امرا ؛ جیل وین پر حملے کے نتیجے میں فرار ہونے والا فرانسیسی ڈرگ لارڈ کون ہے ؟

فرانس کے شہر نورمینڈی میں ایک جیل وین پر کیے گئے حملے میں ایک بدنام زمانہ ڈرگ لارڈ فرار ہو گیا ہے جبکہ اس حملے میں دو فرانسیسی جیل اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب محمد امرا نامی قیدی، جنھیں عرف عام میں ’دی فلائی‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کوعدالت میں پیشی کے بعد جیل واپس لے جایا جا رہا تھا۔ واپسی کے راستے میں جب جیل وین ایک ٹول پلازہ کے قریب پہنچی تو کار میں سوار مسلح حملہ آوروں نے اس پر دھاوا بول دیا۔
ایک کار نے جیل وین کو ٹکر ماری اور اس کے بعد کار میں موجود مسلح افراد نے جیل اہلکاروں پر فائرنگ کر دی، جس میں دو اہلکار ہلاک جبکہ دو شدید زخمی ہوئے ہیں۔
جیل وین پر حملہ کرنے والے افراد اور فرار ہونے والے خطرناک قیدی کی تلاش کے لیے سینکڑوں پولیس افسران اور پیراملٹری فورسز کے اہلکاروں کو تعینات کر دیا گیا ہے۔ شمال مغربی فرانس میں سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں ہیں جبکہ پولیس اہلکار ہر مشتبہ گاڑی کی تلاشی لے رہے ہیں جبکہ محمد امرا کی تلاش کے لیے متعدد مقامات پر چھاپے بھی مارے گئے ہیں۔

فرانسیسی پولیس کے مطابق جس وقت جیل وین پر حملہ کیا گیا اس وقت محمد امرا کو روئن میں ایک عدالتی پیشی کے بعد ایورکس کی جیل واپس لایا جا رہا تھا۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میخواں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اس حوالے سے ٹویٹ کیا کہ ’مجرموں کی تلاش کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔

حکام نے فرار ہونے والے 30 سالہ قیدی کی شناخت محمد امرا کے نام سے کی جو 1994 میں پیدا ہوئے تھے۔ حکام نے رواں برس 10 مئی کو چوری کے جرم میں انھیں سزا سنائی تھی جبکہ حکام نے اُن پر اغوا اور قتل کے ایک دوسرے مقدمے میں فرد جرم عائد کر رکھی تھی۔
جیل وین پر حملے میں فرار ہونے والے محمد امرا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُن کا فرانس کے جنوبی شہر مارسیلی کے ایک منشیات فروش گینگ سے تعلق ہے۔ فرانس کا یہ شہر منشیات فروش گینگز کے درمیان پُرتشدد لڑائیوں اور جھڑپوں کی زد میں ہے۔
محمد امرا کو ’وال ڈی ریول‘ نامی جیل میں رکھا گیا تھا اور حملے سے قبل مبینہ طور پر انھیں جیل سے قریب واقع عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔
جیل اہلکار لورا بیکاوا کا کہنا ہے کہ محمد امرا جیل میں ’انتہائی نگرانی والا قیدی‘ نہیں تھے۔ یہ اصطلاح انتہائی خطرناک قیدیوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
اگرچہ وہ انتہائی خطرناک قیدی نہیں تھے لیکن پھر بھی ان کی نقل و حمل کے لیے ’تیسرے درجے کی سکیورٹی‘ کی ضرورت ہوتی تھی یعنی اس کے ساتھ پانچ پولیس اہلکار معمور ہوتے تھے۔

امرا کے وکیل ہیوگس ویگر کا کہنا ہے کہ ان کے مؤکل محد امرا نے گذشتہ دنوں جیل کی سلاخیں کاٹ کر فرار ہونے کی کوشش کی تھی۔ تاہم اُن کا کہنا ہے کہ وہ حالیہ واقعے میں ’ناقابل معافی اور پاگل پن کی حد تک‘ ہونے والے تشدد پر حیران ہیں۔
اُن کے وکیل نے فرانس کے مقامی ٹی وی ’بی ایف ایم‘ ٹی وی کو بتایا کہ ’میرا اُن کے بارے میں ایسا گمان بالکل نہیں تھا۔‘ اُن کا کہنا تھا کہ منگل کی صبح امرا سے اُن کے اسسٹنٹ کی ملاقات ہوئی تھی۔
انھوں نے بتایا کہ ’یہ ایک مختصر ملاقات تھی جو پہلے سے طے شدہ تھی اور میرے اسسٹنٹ نے امرا کو دیکھا جو بالکل نارمل اور پُرسکون لگ رہے تھے۔ مگر انھیں منگل کو عدالتی پیشی کے بارے میں علم تھا اور ممکن ہے کہ اس نے دیگر لوگوں کو اس کے بارے میں بتایا ہو۔‘
ان کے ساتھیوں کے حملے سے یہ پتا چلتا ہے کہ انھیں تمام معلومات تھیں کیونکہ وہ پہلے سے ہی موٹروے ٹول پلازہ پر جیل وین کا انتظار کر رہے تھے۔

جبکہ محمد امرا کی والدہ کا کہنا ہے کہ اُن کے بیٹے نے انھیں ایسا کوئی عندیہ نہیں دیا تھا کہ وہ فرار ہونے کی کوشش کرنے والا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ’اس نے مجھ سے بات نہیں کی۔ وہ میرا بیٹا ہے لیکن اس نے مجھے اس بارے میں کچھ نہیں بتایا۔‘ ان کی والدہ کا کہنا ہے کہ وہ متعدد بار ان سے مختلف جیلوں میں ملاقات کے لیے گئی لیکن ’اس نے مجھے کبھی کچھ نہیں بتایا۔‘
انھوں نے جیل وین پر حملہ کے واقعے کے بارے میں روتے ہوئے بتایا کہ ’جب مجھے پتا چلا تو میں نے رونا شروع کر دیا، یہ سوچ کر میری طبیعت بگڑ گئی کہ کوئی کیسے کسی کی جان لے سکتا ہے۔‘
انھوں نے جیل میں اپنے بیٹے کی زندگی کے بارے میں بھی بتایا کہ ’جیل حکام اُسے جیل میں اِدھر اُدھر کرتے رہے ہیں (یعنی ایک جیل سے دوسری جیل منتقلی) اور ایک بار اسے سزا سنانے کی بجائے قید تنہائی میں بھی ڈال دیا گیا تھا۔‘
محد امرا کے خلاف چوری کے الزام میں قانونی کارروائی کے دوران انھیں مارسیلی، پیرس اور روئن کی الگ الگ جیلوں میں رکھا گیا تھا۔ اور اس مقدمے میں انھیں 18 ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
بی ایف ایم ٹی وی کے مطابق وہ اس سے قبل بھی معمولی جرائم کے مقدمات میں 13 بار سزا کاٹ چکے تھے جن میں لائسنس کے بغیر گاڑی چلانے، پولیس ناکے پر نہ رکنے اور چوری کرنے کے جرائم شامل ہیں۔ تاہم روئن کے قریب ڈریکس سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کی موت، جنھیں مارسیلی میں منشیات کی سمگلنگ سے منسلک کارروائیوں میں اغوا کیا گیا تھا، سے محمد امرا کے زیادہ سنگین جرائم میں ملوث ہونے کا پتہ چلتا ہے۔

محمد امرا کو پولیس کی تحویل سے فرار کروانے کے لیے ہونے والا مسلح حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب اسی دن فرانسیسی سینیٹ میں ایک رپورٹ پیش کی گئی جس میں خبردار کیا گیا ہے کہ ’فرانس منشیات سے منسلک جرائم میں دھنس چکا ہے۔‘
رپورٹ میں منشیات کی غیر قانونی تجارت میں ’رسد اور طلب دونوں کے بے تحاشہ اضافے‘ کے بارے میں کچھ ایسا کہا گیا کہ ’انتباہ: ملک کا کوئی حصہ اور کوئی بھی سماجی طبقہ منشیات کے جرائم کی پہنچ سے باہر نہیں ہے۔۔۔ منشیات کے کاروبار نے ہر جگہ اپنے پنجے گاڑ لیے ہیں، جس کے ساتھ ساتھ اس سے منسلک تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ منشیات کی تجارت پورے ملک میں پھیل چکی ہے، جس سے اس کی رسائی دیہی علاقوں اور درمیانے درجے کے قصبوں میں بھی ہو رہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’منشیات سے منسلک جرائم کا پھیلاؤ صرف غیر ملکی مافیاز کی وجہ سے نہیں ہیں بلکہ یہ منظم اور خطرناک فرانسیسی تنظیموں کا بھی کام ہے جو بنا کسی حد کے مالی وسائل، علاقائی طاقت یا تشدد کا استعمال کرتی ہیں۔‘
گذشتہ روز مارسیلی کے حکام نکولس بیسونے نے فرانس ٹو چینل کو بتایا کہ یہاں کی منشیات فروش گروہ اتنے امیر اور طاقتور ہو چکے ہیں کہ وہ سرکاری اہلکاروں کو رشوت دے کر بڑی آسانی سے مارسیلی کے عدالتی نظام میں مداخلت کرتے ہیں۔
مارسیلی میں گذشتہ برس منشیات سے منسلک جرائم میں تقریباً 50 افراد مارے گئے تھے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں