برسوں تک بحث ہوتی رہی لیکن اب یورپی یونین کے رکن ممالک نے ایک نئے مائیگریشن معاہدے کی منظوری دے دی ہے۔ اس کا مقصد یورپی یونین میں پناہ کے طریقہ کار اور سرحدوں کی نگرانی کو مزید سخت بنانا ہے۔ اب کیا تبدیلیاں آئیں گی؟
تقریباً ایک دہائی کے سخت گفت و شنید کے بعد 27 رکنی یورپی کونسل نے منگل (14 مئی 2024) کو یورپی یونین میں سیاسی پناہ کے طریقہ کار میں بنیادی اصلاحات پر مہر لگا دی۔
مائیگریشن معاہدہ دس قوانین پر مشتمل ہے۔ اس کا بنیادی مقصد نئے آنے والے مہاجرین کی تعداد کو کم کرنا، پناہ کے طریقہ کار کو تیز بنانا ہے۔ اسی طرح بیرونی سرحدوں کی نگرانی بھی مزید سخت کر دی جائے گی۔
یورپی یونین کے ادارہ برائے شماریات یوروسٹیٹ کے مطابق گزشتہ برس پناہ کی درخواستوں کی تعداد 1.14 ملین تھی۔ یہ تعداد چار برسوں سے مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس کے علاوہ سن 2022 سے یوکرین کے تقریباً 40 لاکھ جنگی پناہ گزینوں کو یورپی یونین میں جگہ دی گئی ہے۔
پناہ کا ابتدائی فیصلہ بیرونی سرحدوں پر
نئے قوانین کے تحت پناہ کے متلاشیوں یا مہاجرین کو خشکی، سمندر یا ہوائی راستے سے یورپ پہنچنے پر سات دنوں کے اندر اندر واضح طور پر شناخت اور توسیع شدہ بائیو میٹرک ”یوروڈاک‘‘ فائل میں رجسٹر کیا جانا چاہیے۔
اسی طرح 20 فیصد سے کم شناخت کی شرح والے ممالک کے تارکین وطن کو 12 ہفتوں تک سرحد پر قائم کیمپوں میں ”قید رکھا‘‘ جا سکے گا۔
یونان، اٹلی، مالٹا، اسپین، کروشیا اور قبرص میں قائم کیے جانے والے کیمپوں میں ہی یہ طے کیا جائے گا کہ کس کو بغیر کسی جانچ کے ان کے آبائی ملک واپس بھیجا جانا چاہیے۔ اس قانون سے مہاجرین کی ایک مختصر تعداد ہی متاثر ہو گی۔ اس طرح یورپ کے تمام سرحدی کیمپوں میں بیک وقت 30 ہزار تارکین وطن کو رکھنے کی گنجائش پیدا کی جائے گی۔
جن ممالک کے تارکین وطن کی شناخت کی شرح زیادہ ہو گی، انہیں سیاسی پناہ کے عام طریقہ کار سے گزرنا پڑے گا۔ اس وقت اس طریقہ کار کے تحت پناہ کی درخواست منظور ہونے میں کئی برس لگ سکتے ہیں لیکن یہ دورانیہ بھی کم کیا جائے گا۔
مسترد شدہ تارکین وطن کو بیرونی سرحدوں سے براہ راست ملک بدر کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
تارکین وطن کو تقسیم کیسے کیا جائے گا؟
تارکین وطن کا تمام بوجھ یورپی یونین کے بیرونی سرحدوں والے ممالک نہیں اٹھا سکتے اور اس چیز کا خیال رکھا گیا ہے۔ ابتدائی چھان بین کے بعد جن مہاجرین کے پاس یورپی یونین کے دیگر رکن ممالک میں پناہ حاصل کرنے کے اچھے مواقع ہوں گے، انہیں وہاں منتقل کر دیا جائے گا
اس تناظر میں یورپی یونین کے رکن ممالک کو ”لازمی یکجہتی‘‘ کا اظہار کرنا ہو گا۔ یورپی یونین کی ہنگری جیسی ریاستیں، جو مہاجرین کو قبول نہیں کرنا چاہتیں، انہیں کم از کم معاوضہ ادا کرنا ہو گا یا ابتدائی استقبالیہ ریاستوں میں سامان اور عملہ بھیجنا ہو گا۔
یورپی یونین کے جو ممالک مہاجرین کو قبول کرنے سے انکار کریں گے، انہیں فی مہاجر 20 ہزار یورو ادا کرنا ہوں گے۔ تاہم معاوضے کا یہ نظام کسی ایک قانون کے ذریعے مرتب نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس حوالے سے رکن ممالک کی طرف سے ہر معاملے کی نوعیت اور اس کی بنیاد پر بات چیت ہو گی۔
اگر کوئی ملک زیادہ بوجھ محسوس کرتا ہے تو وہ بہت سے قوانین میں نرمی اور دیگر ممالک سے مزید یکجہتی کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ تاہم اس حوالے سے حتمی فیصلہ تمام 27 رکن زیاستی مل کر کریں گی۔
یہ معاہدہ متنازع کیوں؟
معاہدے کے حامیوں کا دلیل دیتے ہوئے کہنا ہے کہ سخت قوانین اور مہاجرین کو جلد از جلد واپس بھیجنے کے طریقہ کار سے مہاجرین کی روک تھام پر طویل المدتی اثر پڑے گا۔ ان کے مطابق اس طرح کم تارکین وطن غیرقانونی طریقوں سے یورپ آنے کا سوچیں گے۔
دوسری جانب اس معاہدے کے ناقدین شکایت کرتے ہیں کہ اس نئے معاہدے سے یورپی یونین میں سیاسی پناہ کے حق کو مجروح کیا جائے گا اور جن لوگوں کو واقعی تحفظ کی ضرورت ہے، انہیں مستقبل میں واپس بھیج دیا جائے گا۔ اس طرح بحیرہ روم کے پار فرار ہونے کے دوران ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔
نئے قوانین کے نفاذ میں دو سال لگیں گے۔ لہذا یہ صرف چند سالوں میں واضح ہو جائے گا کہ آیا پناہ کے متلاشیوں کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے؟