فرانسیسی شہری لوئی آرنو ایرانی جیل سے رہائی کے بعد پیرس پہنچ گئے

فرانسیسی شہری لوئی آرنو ستمبر 2022ء سے ایران میں قید تھے۔ رہائی کے بعد جمعرات کو وہ واپس پیرس پہنچے تو وزیر خارجہ بھی ان کے استقبال کے لیے ہوائی اڈے پر موجود تھے۔
تفصیلات کے مطابق دو ہزار بائیس سے ایران کی ایون جیل میں مقید لوئی آرنو جنہیں گزشتہ سال ایران کی ایک عدالت نے ملکی قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے الزام میں پانچ سال کی قید کی سزا سنائی تھی، وہ رہائی کے بعد پیرس پہنچ گئے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق جب آرنو پیرس کے مضافات میں قائم لے بورژ ہوائی اڈے پر اترے تو فرانسیسی وزیر خارجہ اسٹیفن سییورغنے بھی ان کے استقبال کے لیے وہاں موجود تھے۔ آرنو وزیر خارجہ سے مصافحہ کے بعد اپنے والدین سے گلے ملے اور ان کے ساتھ ہوائی اڈے کے ایک نجی کمرے میں داخل ہوگئے۔ ان مناظر کو فرانسیسی ٹیلی وژن پر نشر کیا گیا۔
ہوائی اڈے پر لوئی آرنو کا استقبال کرنے والے وزیر خارجہ اسٹیفن سییورغنے نے ایک بیان دیتے ہوئے کہا،”میں آرنوکا خیرمقدم کرتے ہوئے بہت خوشی محسوس کر رہا ہوں، انہیں ایران میں جبری طور پر قید میں رکھا گیا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا،” تین دیگر فرانسیسی شہریوں کو رہا کرنے کے لیے سفارتی کوششیں جاری ہیں۔‘‘ ژاک پیرس، سیسیل کوہلر اور تیسرے کا نام محض اولیور لیتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ یہ ہنوز ایرانی جیلوں میں قید ہیں۔
36 سالہ فرانسیسی کنسلٹنٹ آرنو 2022 ء میں ورلڈ ٹرپ پر تھے اور اسی دوران ایران پہنچے تھے۔ چند ماہ قبل لوئی آرنو کی ماں نے ایک بیان میں کہا تھا،” ایران وہ ملک تھا، جہاں جانا، آرنو کا ایک طریل عرصے سے خواب تھا۔ ایران کی قدیم اور عظیم تاریخ کے نمونے دیکھنے اور وہاں کے انتہائی مہمان نواز عوام سے ملنے کا اُسے ایک عرصے سے شوق تھا۔
تاہم ایران پہنچنے پر آرنو کو 2022 ء میں کچھ دیگر یورپی باشندوں کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔ 22 سالہ کُرد نژاد خاتون مہسا امینی کی ایرانی اخلاقی پولیس کی حراست میں ہونے والی موت کے بعد ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں میں حصہ لینے کے الزام میں آرنو کو دیگر یورپی باشندوں کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔
فرانسیسی شہری بینجمن بریری اور فرانسیسی-آئرش دوہری شہریت کے حامل برنارڈ فیلان کو مئی 2023ء میں ایران نے ”انسانی بنیادوں پر‘‘ رہا کر دیا تھا۔ ان دونوں نے بھوک ہڑتال کر رکھی تھی، جس کے سبب دونوں بہت کمزور ہو گئے تھے۔
تہران کی تحویل میں اس وقت قریب ایک درجن مغربی شہری ہیں، جن کے حامیوں اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم گروپوں کا الزام ہے کہ تہران حکومت انہیں بین الاقوامی مذاکرات میں سودے بازی کے لیے بطورِ ہتھیار استعمال کر رہی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں