فرانس: انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت کو برتری
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کے اتحاد کو شکست کا سامنا
ابتدائی اندازوں سے معلوم ہوتا ہے کہ فرانس کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت نیشنل ریلی (آر این) نے پارلیمانی انتخابات کے پہلے مرحلے میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں اور صدر ایمانوئل ماکروں کے اتحاد کو شکست کا سامنا ہے۔
فرانس کی پارلیمان کے پہلے مرحلے کے انتخابات کے بعد جو جائزے سامنے آئے ہیں اس سے ملک کی سیاست میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے غلبے کی تصدیق ہوتی ہے اور وہ پہلی بار تقریباً اقتدار کے دروازے تک پہنچتے دکھائی دے رہے ہیں۔
ایگزٹ پول کے جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ میرین لی پین کی قیادت والی انتہائی دائیں بازو کی جماعت نیشنل ریلی (آر این) نے پارلیمانی انتخابات کے پہلے مرحلے میں تقریباً 34 فیصد ووٹ حاصل کیے اور اس طرح اس جماعت کو پارلیمان کی تقریبا 240 سے 270 کے درمیان نشستیں حاصل ہونے کا غالب امکان ہے۔
اس کے برعکس صدر ماکروں کی قیادت والے حکمراں اتحاد نیو پاپولر فرنٹ (این پی ایف) کو 180 سے 200 کے درمیان ہی سیٹیں ملنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
پول جائزوں کے مطابق آر این کو 33 اعشاریہ دو فیصد ووٹ ملنے کی توقع ہے جبکہ بائیں بازو کے اتحاد کو 28.1 فیصد ووٹ مل سکتے ہیں۔ صدر ماکروں کا اتحاد 21 فیصد ووٹ کے ساتھ کافی پیچھے ہے۔
پناہ گزینوں کی مخالف میرین لی پین کی جماعت نیشنل ریلی کے حامیوں نے اس پر خوشی کا اظہار کیا جب کہ پارٹی کی صدر نے کہا کہ ان انتخابات میں ”ماکروں کے بلاک کو ختم کر دیا گیا ہے۔”
آر این کے 28 سالہ نوجوان رہنما جارڈن بارڈیلا نے کہا، ” اگر فرانسیسی عوام ہمیں اپنا ووٹ دیں، تو میں تمام فرانسیسی عوام کے لیے وزیر اعظم بننا چاہتا ہوں۔
جارڈن بارڈیلا نے کہا کہ اگر ان کی پارٹی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں قطعی اکثریت حاصل کرتی ہے تو وہ ”تمام فرانسیسی عوام کے وزیر اعظم” بننے کے لیے تیار ہیں۔
بارڈیلا نے کہا، ”میں آئین اور صدر جمہوریہ کے عہدے کا احترام کرنے والا ایک ‘ہم آہنگ’ وزیر اعظم ثابت ہوں گا، تاہم ان پالیسیوں کے بارے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کروں گا جنہیں ہم نافذ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا، ” فرانسیسی عوام نے واضح فیصلہ دیا ہے” اور پارٹی نے ابتدائی پارلیمانی انتخابات کے پہلے مرحلے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
واضح رہے کہ فرانس کے پارلیمانی انتخابات کے پہلے دور میں انتہائی دائیں بازو نے اس سے پہلے کبھی بھی کامیابی حاصل نہیں کی۔ 577 نشستوں والی قومی اسمبلی میں قطعی اکثریت کے لیے 289 نشستوں کی ضرورت ہے اور میرین لی پین اور ان کے ساتھی جارڈن بارڈیلا قطعی اکثریت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
آئندہ اتوار کے روز دوسرے مرحلے کی پولنگ ہو گی اور پول جائزوں کے مطابق انہیں قطعی اکثریت ملنے کا امکان کم ہے۔ اس صورت میں انتہائی دائیں بازو کا اتحاد دیگر چھوٹی ہم خیال جماعتوں کے ساتھ مل کر پارلیمان میں اکثریت حاصل کرنے پر غور کر رہا ہے۔ قدامت پسند ریپبلکن پارٹی کو بھی 30 سے 50 کے درمیان سیٹیں ملنے کی توقع ہے۔
یہ تمام نتائج اور سیاسی قیاس آرائیاں پول جائزوں پر مبنی ہیں اس لیے غلطی کا بھی ایک بڑا مارجن برقرار ہے اور اس مرحلے پر انتخابی نتائج انتہائی غیر یقینی صورت حال میں ہیں۔
کسی بھی ایک جماعت کو مطلق اکثریت نہ حاصل ہونے کی صورت میں فرانس میں معلق پارلیمان کا بھی امکان ہے اور اگر ایسا ہوا تو آر این بھی امیگریشن، ٹیکسوں میں کٹوتیوں اور امن و امان سے متعلق اپنے منصوبوں کو آگے بڑھانے میں ناکام ثابت ہو سکتی ہے۔
فرانس کے پارلیمانی انتخابات کے پہلے راؤنڈ میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت نیشنل ریلی کی برتری کے خلاف ہزاروں افراد پیرس کے ریپبلک پلازہ پر جمع ہوئے۔ مظاہرین میں سے ایک نے بتایا کہ فرانس ”انتہا پرستی کی طرف گامزن ہے۔”
پولیٹیکل سائنس کی 19 سالہ طالبہ سنتھیا فیفوہیو نے کہا، ”لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ اس کا ہم پر برسوں اور سالوں تک اثر پڑے گا۔ یہ نفرت پر مبنی فرانس ہے جو بڑھ رہا ہے۔ یہ یکجہتی اور اتحاد کا فرانس نہیں ہے۔”
ووٹوں کے نتائج کا اعلان ہونے کے فوراً بعد صدر ایمانوئل ماکروں اور بائیں بازو بلاک کے سربراہ ژاں لوک میلینشون نے میرین لی پین کے خلاف اتحاد کرنے کا اشارہ کیا۔
سن 1997 کے بعد پارلیمانی انتخابات کے پہلے راؤنڈ کے لیے ریکارڈ نمبر میں لوگوں نے ووٹ ڈالا، جو کہ ان انتخابات کی اہم نوعیت کی عکاسی کرتا ہے۔
ابھی بہت سے حلقوں میں پولنگ نہیں ہوئی اور مستقبل کی قومی اسمبلی کی بامعنی نمائندگی انہیں حلقوں میں دوسرے مرحلے کے انتخابات کے بعد ہی ممکن ہو سکے گی۔
فرانس کے موجودہ صدر ایمانوئل ماکروں نے یورپی پارلیمان کے حالیہ الیکشن میں مارین لے پین کی دائیں بازو کی جماعت نیشنل ریلی کے ہاتھوں شکست کے بعد ان انتخابات کا اعلان کیا تھا۔
مارین لے پین کی پارٹی مہاجرت میں کمی کی حامی رہی ہے۔ اس پارٹی کو فیصلہ کن اکثریت ملنے کی صورت میں فرانس میں سفارت کاری کے حوالے سے ایک ہنگامہ خیز دور کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔
صدر ماکروں پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کے وہ 2027ء میں اپنی صدارت کی مدت ختم ہونے تک فرانس کے صدر رہیں گے اور جارڈن بارڈیلا کے وزیر اعظم بننے کی صورت میں ان دونوں میں بین الاقوامی سطح پر فرانس کا موقف پیش کرنے کے حوالے سے اختلافات ہونے کے قوی امکانات ہیں۔